کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 163
عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیر لو۔‘‘ [1] امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ حدیث کئی ایک اسناد سے مروی ہے، اس کے تمام طرق بے اصل اور انتہائی کمزور ہیں، یہ سند کچھ بہتر ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے۔‘‘ [2] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے ضعف کا سبب بایں طور پر بیان کیا ہے کہ اس سند میں ایک راوی ہے جس کا نام نہیں بیان ہوا اگرچہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ وہ صالح بن سمان ہے لیکن یہ بھی انتہائی ضعیف ہیں۔ اس بنا پر اضافہ منکر ہے اور اس کا ابھی تک کوئی شاہد یا متابع نہیں مل سکا۔ اسی بنا پر علامہ عز بن عبدالسلام نے کہا ہے ’’دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ صرف جاہل پھیرتا ہے۔‘‘[3]علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے متعلق ایک دو حدیثیں مروی ہیں جو قابل حجت نہیں ہیں۔ [4] بہرحال چہرے پر ہاتھ پھیرنے والی روایات صحیح نہیں ہیں۔ واﷲ اعلم قبرستان کے علاوہ جگہ پر قرآن خوانی کرنا سوال: اہل حدیث شمارہ نمبر ۱۷ مجریہ ۲۳ اپریل میں قبرستان میں قرآن خوانی کے متعلق ایک فتویٰ شائع ہوا ہے، آپ نے لکھا ہے کہ قبرستان چونکہ قراءت قرآن کا محل نہیں ہے لہٰذا اس میں قرآن خوانی کا اہتمام خلاف شریعت ہے، اس فتویٰ میں عدم جواز کے لیے اس امر کو علت قرار دیا گیا ہے کہ قبرستان، قراءت قرآن کا محل نہیں ہے، اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ جو مقامات قراءت قرآن کا محل ہیں وہاں قرآن خوانی کی جا سکتی ہے مثلاً: ٭ گھروں میں برکت کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٭ کارخانوں اور فیکٹریوں میں کاروبار کی ترقی کے لیے قرآن خوانی کرائی جاتی ہے۔ ٭ کسی بیمار کی شفایابی کے لیے بھی گھروں میں قرآن پڑھایا جاتا ہے۔ ٭ ناگہانی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بسوں میں قرآن خوانی بھی کی جاتی ہے۔ ٭ شادی ہال میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ٭ فوت شدگان کے ایصال ثواب کے لیے حفاظ کرام کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں، اس قسم کا اہتمام گھروں اور مساجد میں کیا جاتا ہے۔ یہ مذکورہ تمام مقامات قرآن پڑھنے کا محل ہیں، کیا ان مقامات میں قرآن خوانی کرائی جا سکتی ہے، امید ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت اولین فرصت میں کر دیں گے تاکہ آپ کے استعمال کردہ الفاظ سے شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں۔ جواب: اصل بات یہ ہے کہ مروجہ قرآن خوانی کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے، قبرستان میں اس کا اہتمام کسی طرح سے
[1] ابو داود، الوتر: ۱۴۸۵ [2] ابو داود: ۱۴۸۵۔ [3] الاحادیث الصحیحہ: ۵۹۵۔ [4] مجموع الفتاویٰ، ۵۱۴، ج۲۲۔