کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 158
قرآنی دعاؤں کا صیغہ بدلنا سوال: قرآن کریم میں بہت سی دعائیں منقول ہیں، کیا ان کی ضمیروں کو بدلا جا سکتا ہے یعنی واحد کوجمع اور جمع کو واحد کرنا جائز ہے؟ مثلاً قرآن میں ہے: ﴿رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا﴾ کیا اسے اجتماعی طور پر رَبَّنَا زِدْنَا عِلْمًا پڑھا جا سکتا ہے؟ جواب: قرآن وحدیث میں آنے والی دعاؤں میں اپنی طرف سے تبدیلی جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعا کرتے وقت حد اعتدال سے تجاوز کریں گے۔‘‘ [1] حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا سکھائی جس میں یہ الفاظ تھے: ’’ونبیك الذی ارسلت‘‘ انہوں نے جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا یاد کر کے سنائی تو بایں الفاظ پڑھا: ’’ورسولك الذی ارسلت‘‘ یعنی انہوں نے ’’نبیك‘‘ کے بجائے ’’رسولك‘‘پڑھ دیا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ونبیك الذی ارسلت کے الفاظ ہی یاد کرو۔‘‘ [2] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہوئی دعا میں ترمیم کو قبول نہ فرمایا، اس بنا پر ہمارے رجحان کے مطابق تذکیروتانیث یا واحد جمع کا اعتبار کرتے ہوئے ضمیروں کو بدلنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی امام ہے تو اسے چاہیے کہ الفاظ وہی ادا کرے جو قرآن وحدیث میں ہیں، البتہ نیت جمع کی کرے یعنی الفاظ بدلنے کی بجائے مقتدی حضرات کو نیت میں شامل کر لے، بعض حضرات آیت کریمہ میں انی کنت من الظالمین میں انا کنا من الظالمین بولنے کی تلقین کرتے ہیں، ایسا کرناجائز نہیں ہے، صورت مسؤلہ میں رب زدنی علماً کو ربنا زدنا علمًا پڑھنا بھی محل نظر ہے، اگر مقتدی حضرات کو دعا کرتے وقت شامل کرنا ہے اور جمع کے الفاظ لانے ہیں تو درج ذیل دعا پڑھ لی جائے: ((اَللّٰھُمَّ انْفَعْنَا بِمَا عَلَّمْتَنَا وَ عَلِّمْنَا مَا یَنْفَعُنَا وَزِدْنَا عِلْمًا)) ’’اے اﷲ! ہمیں جو تو نے علم سکھایا ہے اسے ہمارے لیے نفع مند بنا اور ہمیں ایسا علم عطا فرما جو ہمیں نفع دے اور ہمارے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ بہرحال ائمہ کرام کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے حساس مسائل میں سمجھ داری سے کام لیا کریں، اﷲ تعالیٰ بصیرت ودانائی سے ہمیں بہرہ ور کرے۔ (آمین) نماز کے بعد آیت الکرسی اور معوذتین پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مارنا سوال: میں نماز کے بعد آیت الکرسی اورمعوذتین پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتا ہوں پھر ان ہاتھوں کو تمام بدن پر پھیرتا ہوں، لیکن مجھے ایک ساتھی نے کہا ہے کہ یہ عمل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔ جواب: نماز کے بعد آیت الکرسی اور معوذتین پڑھنے کا مروجہ عمل میری نظرسے نہیں گزرا، البتہ سوتے وقت ایسا کرنا
[1] ابو داود، الوتر: ۱۴۸۰۔ [2] صحیح بخاری، الوضو: ۲۴۷۔