کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 155
1) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ یہ ہیں: االلّٰه اکبر، االلّٰه اکبر، االلّٰه اکبر کبیرا[1] 2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے درج الفاظ کو بیان کیا ہے: االلّٰه اکبر کبیرا االلّٰه اکبر کبیرا االلّٰه اکبر واجل االلّٰه اکبر وللّٰہ الحمد [2] 3) حضرت عمر اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں: االلّٰه اکبر، االلّٰه اکبر، لا الہ الا االلّٰه وااللّٰه اکبر، االلّٰه اکبر وللّٰہ الحمد [3] اگرچہ ان احادیث کے بارے میں محدثین نے کچھ کلام کیا ہے تاہم قرآنی حکم کی بجاآوری میں ان احادیث پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ (واﷲ اعلم) جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنا سوال:جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے کے متعلق کوئی فضیلت حدیث میں آئی ہے؟ نیز بتائیں کہ اسے پورا پڑھنا چاہیے اور کس وقت پڑھا جائے؟ صحیح احادیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب:جمعہ کے دن سورۃالکہف پڑھنے کے متعلق احادیث آتی ہیں، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے والے کےلیے دو جمعوں کے درمیانی عرصہ کے لیے روشنی رہتی ہے۔‘‘[4] امام حاکم نے بھی اسے روایت کیا ہے [5] اور اسے صحیح قرار دیا ہے، البتہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے نعیم بن حماد راوی کی وجہ سے اس پر اعتراض کیا ہے، لیکن ان پر اعتراض درست نہیں کیونکہ بیہقی میں اس کے متابعات اور شواہد موجود ہیں، جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ [6] اس کے وقت کے متعلق کوئی حدیث تعیین میری نظر سے نہیں گزری، البتہ خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن امام کی آمد سے پہلے سورہ کہف کی تلاوت کرے تو ایسا کرنا جمعہ سے آیندہ جمعہ تک کفارہ بن جاتا ہے اور اس کا نور بیت اللہ تک پہنچتا ہے۔ [7] لیکن یہ مرفوع روایت نہیں بلکہ ایک مشہور تابعی کا قول ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ جمعہ کے دن عصر کے بعد سورۂ کہف پڑھنے کے متعلق کوئی حدیث آئی ہے تو انہوں نے جواب دیا: جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے کے متعلق کچھ آثار ملتے ہیں۔ جنہیں محدثین اور فقہاء نے بیان کیا ہے لیکن وہ مطلق ہیں، میری نظر میں عصر کے بعد پڑھنے کی تعیین کسی روایت میں نہیں ہے۔ [8]
[1] بیہقی، ص: ۳۱۶، ج۳ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ، ص: ۴۸۹، ج۱۔ [3] مصنف ابن ابی شیبۃ، ص: ۴۸۸، ج۱۔ [4] سنن بیہقی، ص: ۲۹،ج۳۔ [5] مستدرک ص: ۳۶۸،ج۲۔ [6] ارواء الغلیل، ص:۹۳،ج۳۔ [7] المغنی ابن قدامہ، ص: ۲۳۶،ج۳۔ [8] مجموع الفتاویٰ ص: ۵۱۵،ج۲۴۔