کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 152
شدہ حدیث یہی حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے۔‘‘ [1] اس کی تائید حضرت عبداﷲ بن بسر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، روایت میں ہے کہ وہ لوگوں کے ہمراہ عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ کے دن نکلے تو انہیں امام کے تاخیر کرنے پر انتہائی تعجب ہوا، انہوں نے فرمایا کہ ہم تو اس وقت نماز پڑھ کر فارغ ہو چکے ہوتے تھے اور وہ چاشت کا وقت تھا۔ [2] بہرحال اسے طلوع آفتاب کے فوراً بعد نہیں ادا کرنا چاہیے اور نہ ہی بلاوجہ اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جائے، اس کی ادائیگی کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو زوال آفتاب کے بعد عید کا چاند نظر آنے کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کل صبح لوگ نماز عید ادا کرنے کے لیے عیدگاہ پہنچیں۔‘‘ [3] دوران خطبہ سلام کا جواب دینا سوال :دوران خطبہ سلام کا جواب دیاجا سکتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح اگر چھینک آئے تو اس کا جواب دینا شرعاً کیساہے؟ قرآن وسنت کے حوالے سے جواب دیں؟ جواب:خطبہ جمعہ کے آداب سے ہے کہ اسے خاموشی اور توجہ سے سنا جائے، حتی کہ اگر دو شخص دوران خطبہ باتیں کرتے ہیں تو انہیں خاموش بھی نہیں کرانا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن دوران خطبہ جب تم اپنے ساتھی سے کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو بلاشبہ تم نے لغو حرکت کی ہے۔‘‘ [4] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران خطبہ ہر قسم کا کلام ممنوع ہے اگرچہ بعض احادیث میں ایسی حرکت سے جمعہ کے ضائع ہونے کا ذکر ہے لیکن یہ احادیث صحیح نہیں ہیں، اس لیے دورانِ خطبہ بات کرنے سے جمعہ تو ضائع نہیں ہو گا البتہ اجروثواب میں ضرور کمی ہو جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران خطبہ سلام کا جواب دینا اور جسے چھینک آئے اس کے لیے یرحمک اﷲ کہنا ممنوع ہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ شارح ترمذی لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک زیادہ مناسب یہ ہے کہ دوران خطبہ کلام سے ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی باہمی گفتگو ممنوع ہے اور اسی طرح خاموشی سے مراد لوگوں کی باہمی گفتگو سے خاموشی ہے نہ کہ اﷲ کے ذکر سے خاموشی مراد ہے جیسا کہ ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ دوران خطبہ لوگوں سے کلام کرنے سے خاموش رہے لیکن پوشیدہ طور پر اپنے دل میں سلام کا جواب دے یا جسے چھینک آئے تو اسے خفیہ جواب دے، یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آنے پر آپ پر خفیہ درود پڑھ لے تو یہ شخص ہر مذکورہ ممانعت سے اجتناب اور حکم پر عمل کرنے والا ہوگا۔‘‘ ہمارے رجحان کے مطابق یہ مؤقف صحیح ہے کیونکہ ان تمام اشیاء کو کلام نہیں کہا جاتا اور یہ انصات کے خلاف بھی نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)
[1] نیل الاوطار، ص: ۵۹۲، ج۲۔ [2] ابو داود، الصلوٰۃ: ۱۱۳۵۔ [3] ابو داود، الصلوٰۃ: ۱۱۵۷۔ [4] بخاری، الجمعہ: ۹۳۴۔