کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 151
ان احادیث کی روشنی میں ہمارا موقف ہے کہ اگر کوئی جمعہ کے دن اس وقت آتا ہے جب امام تشہد میں بیٹھا ہو اور وہ اس حالت میں شامل ہو جاتا ہے تو اسے ظہر کی نماز پڑھنی ہو گی، کیونکہ اتنی مقدار میں امام کے ساتھ شمولیت کرنے سے جمعہ نہیں ہوتا، اگرچہ ہمارے ہاں لاعلمی کی وجہ سے لوگ دو رکعت ہی پڑھ لیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ایسے حالات میں ظہر کی چار رکعت پڑھیں۔ (واﷲ اعلم) خطیب کا جماعت نہ کروانا سوال :ہمارے ہاں جمعہ پڑھانے ایک خطیب صاحب باہر سے تشریف لاتے ہیں، ان کا معمول ہے کہ وہ خطبہ سے فراغت کے بعد خود نماز نہیں پڑھاتے بلکہ مسجد میں تعینات قاری صاحب کو جماعت کرانے کا کہتے ہیں، چنانچہ وہ نماز پڑھاتے ہیں، کیا ایسا جائز ہے کتاب وسنت میں اس کی گنجائش ہے؟ جواب :سنت طریقہ یہی ہے کہ جو شخص خطبہ دے وہی نماز پڑھائے۔ کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہی معمول رہا اور آپ کے بعد خلفائے راشدین بھی اسی پر عمل پیرا رہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ [1] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ [2] اگر کسی معقول عذر کی بناء پر خطیب کے علاوہ کوئی دوسرا نماز پڑھائے تو جائز ہے اور نماز درست ہو گی لیکن اسے معمول نہ بنایا جائے جیسا کہ صورت مسؤلہ میں بیان کیا گیا ہے، عذر کے بغیر ایسا کرنا خلاف سنت ہے، البتہ نماز ہو جائے گی۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کرتے ہوئے جو خطبہ وہی جمعہ کی نماز پڑھائے، پھر خلفائے راشدین اور ان کے بعد ائمہ کرام بھی اس پر عمل پیرا تھے۔ (واﷲ اعلم) نماز عید کا وقت سوال: ہمارے ہاں عیدین کی نماز کے لیے جو وقت مقرر کیا جاتا ہے، اس میں کافی اختلاف ہوتا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟ جواب: عیدالاضحی کے بعد قربانی کرنی ہوتی ہے اس لیے اس کی ادائیگی میں جلدی کی جائے جب کہ عیدالفطر کو ذراتاخیر سے پڑھا جائے، بہرحال جب سورج طلوع ہو کر بلند ہو جائے تو نماز عید کا وقت شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور عیدالاضحی اس وقت ادا کرتے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جاتا ہے۔ [3] اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’نماز عیدین کے وقت کی تعیین میں سب سے اچھی وارد
[1] صحیح بخاری، الاذان: ۶۳۱ [2] مسند امام احمد، ص: ۱۲۶، ج۴۔ [3] تلخیص الحبیر، ص: ۱۶۷، ج۲۔