کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 145
ادا کر لے اور ان رکعات میں تکبیرات بھی کہے۔‘‘ [1] جس کی نماز عید رہ جائے وہ اس کی قضا اسی طرح ادا کرے جس طرح نماز عید پڑھی جاتی ہے یعنی وہ رکعت ادا کرے اور اس میں اس طرح تکبیریں اور ذکر کرے جیسے نماز عید میں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی افتاء کمیٹی کا فتویٰ حسب ذیل ہے: ’’نماز عیدین کی ادائیگی فرض کفایہ ہے اگر اتنے افراد پڑھ لیں جو کافی ہوں تو باقی افراد سے اس کا گناہ ساقط ہو جاتا ہےاور جس کی یہ نماز فوت ہو جائے اور وہ اس کی قضا دینا چاہے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خطبہ کے بغیر نماز عید کے طریقہ کے مطابق اسے ادا کر لے۔‘‘ [2] جمعہ کے دن عید پڑھنا سوال کیا جمعۃ المبارک کے دن نماز عید پڑھی جا سکتی ہے؟ لوگوں میں مشہور ہے کہ جمعہ کے دن دو خطبے حاکم وقت کے لیے زوال کا باعث ہیں، اس مفروضے کی کیا حیثیت ہے؟ جواب اسلام میں کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کا معیار کتاب وسنت ہے، لوگوں کے ہاں کسی چیز کی شہرت یا رواج کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جمعہ کے دن دو خطبوں کے متعلق جو مشہور ہے یہ عوامی ذہن کی پیداوار ہے، قرآن وسنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، ہمارے نزدیک جمعہ اور عیدکا دن باعث برکت ہے، جب دونوں برکتیں ایک دن میں جمع ہوجائیں تو اسے نحوست کا باعث کیوں خیال کیا جاتا ہے؟ شرعی طور پر اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے کہ ایک دن میں جمعہ اور عید کا خطبہ حکمرانوں کے لیے زوال کا باعث ہے بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نماز عید اور جمعہ اکٹھے آگئے تو آپ نے ان دونوں کو جمع فرمایا جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے لیے دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں، اس لیے جو چاہے جمعہ بھی پڑھ سکتا ہے اور رخصت بھی ہے البتہ ہم دونوں کو جمع کریں گے یعنی ہم جمعہ بھی ادا کریں گے۔[3] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ اور عید کے اجتماع کو دو خوشیاں قرار دیا ہے اور ہم اسے منحوس خیال کرتے ہیں، بہرحال سوال میں ذکر کردہ خیال خرافات سے ہے شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (وا ﷲاعلم) عید کے دن عورتوں کو وعظ ونصیحت کا خصوصی اہتمام کرنا سوال: کیا عیدکے دن عورتوں کو وعظ ونصیحت کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا مشترکہ وعظ ونصیحت ہی کافی ہے؟ سنا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو وعظ نصیحت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا‘‘ اور اس کے تحت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو الگ وعظ ونصیحت کرنے کا
[1] مغنی، ص: ۲۸۵، ج۳۔ [2] فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ، ص: ۳۰۶، ج۸۔ [3] ابو داود، الصلوٰۃ: ۱۰۷۳۔