کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 137
نے فرمایا: ’’نماز ضحی کی حفاظت اواب یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہی کر سکتا ہے پھر فرمایا کہ یہی صلوٰۃ الاوابین ہے۔‘‘[1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے خلیل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین کاموں کی وصیت فرمائی تھی میں انہیں کسی حالت میں چھوڑنے والا نہیں ہوں وتر پڑھے بغیر نیند نہ کروں، صلوٰۃ ضحی کی دو رکعت ترک نہ کروں کیونکہ یہ صلوٰۃ الاوابین ہے اور ہر ماہ تین روزے رکھوں۔ [2] صلوٰۃ ضحی کی دو، چار اور آٹھ رکعت ثابت ہیں، جس قدر وقت میسر آئے پڑھ لی جائیں۔ واضح رہے کہ صلوٰۃ ضحی کا دوسرا نام صلوٰۃ اشراق ہے، وقت کے اعتبار سے اس کے دو الگ الگ نام ہیں یعنی اگر سورج طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کریں تو صلوٰۃ الاشراق اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو جائے اور دھوپ میں اس قدر شدت آجائے کہ پاؤں جلنے لگیں لیکن زوال سے قبل پڑھیں تو اسے صلوٰۃ ضحی کہا جاتا ہے اسے محدثین نے ضحوۃ صغریٰ اور ضحوۃ کبریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (واللہ اعلم) تحیۃ المسجد ترک کرنا سوال:کچھ لوگ مسجد میں آتے ہیں تو جماعت کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں، کیا اس طرح تحیۃ المسجد کی دو رکعات ترک کر دینا جائز ہے؟ جواب:تحیۃ المسجد کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت ادا کیے بغیر وہ نہ بیٹھے، اس حدیث کے پیش نظر نمازی کو تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے، اگر اس نے جماعت سے پہلے سنت وغیرہ پڑھ لی ہیں تو تحیۃ المسجد اس سے ادا ہو جائیں گے، اگر جماعت کے لیے تھوڑا سا وقت باقی ہو کہ اس میں تحیۃ المسجد ادا نہ کیے جا سکتے ہوں تو مسجد میں آکر کھڑے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر معلوم نہ ہو کہ امام کب آئے گا تو تحیۃ المسجد شروع کر دے پھر اگر امام آجائے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو تحیۃ المسجد کو ختم کر کے جماعت میں شامل ہو جائے بصورت دیگر اسے پورا کرے بہرحال مسجد میں آنے کے بعد اگر دو رکعت ادا کرنے کا وقت ہو تو کھڑے رہنا اچھا نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر باوقار طریقہ سے بیٹھ جائے۔ (واللہ اعلم) دوڑ لگا کر جماعت میں شامل ہونا؟ سوال:اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کچھ نمازی رکعت پانے کے لیے دوڑ لگاتے ہیں، ایسا کرنا انسانی وقار کے خلاف معلوم ہوتا ہے، کیا رکعت پانے کے پیش نظر انسان دوڑ کر جماعت میں شامل ہو سکتا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب:جماعت میں شمولیت کے لیے جلدی کرنا اور تیز چل کر آنا ایک اچھی عادت ہے لیکن تیز دوڑ کر بھاگتے ہوئے آنا ممنوع ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم بھاگ کر مت آؤ بلکہ سکون و وقار کے ساتھ چل کر آؤ، نماز کا جو حصہ پا لو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے مکمل کر لو۔‘‘ [3]
[1] مستدرک حاکم،ص:۶۲۲،ج۱۔ [2] مسند امام احمد،ص:۴۱۲،ج۳۔ [3] صحیح بخاری، الجمعہ: ۱۹۰۸۔