کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 135
رجحان کے مطابق خطیب یا امام مسجد کا سر براہ اور مسجد اس کا گھر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کوئی آدمی کسی آدمی کے دائرہ اقتدار میں امامت نہ کرائے۔‘‘[1] ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کسی آدمی کے گھر میں یا اس کے دائرہ اقتدار میں کوئی دوسرا امامت نہ کرائے۔[2] ہاں اگر امام یا خطیب سے اجازت لے لی جائے تو دوسرا شخص خطبہ دے سکتا ہے اور امامت بھی کرا سکتا ہے جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے کہ مالک خانہ کی اجازت سے کوئی دوسرا امامت کرا سکتا ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا مہمان ہے تو ان کی امامت نہ کرائے بلکہ ان (مقامی لوگوں) میں سے ہی کوئی ان کی امامت کرائے۔[3] ہاں اگر مہمان آدمی اہل علم اور صاحب فضل لوگوں میں سے ہے تو امام راتب کے لیے اخلاقی اعتبار سے بہتر ہے کہ وہ اسے امامت یا خطابت کی دعوت دے اور اسے آگے کرے، بہرحال ایسے مسائل افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہونے چاہئیں ہر ایک کو دوسرے کی قدر شناسی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذان دینا سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی زندگی میں اذان کہی تھی؟ اگر کہی تھی تو کب اور کس موقع پر؟ اگر نہیں کہی تو کیوں؟ اولین فرصت میں جواب ارشاد فرمائیں۔ جواب کسی کام کو دین اسلام کا ضابطہ بننے کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہو یا اس کے متعلق ترغیب دلائی ہو، اس پر عمل کر کے دکھانا ضروری نہیں ہے مثلاً نمازِ تسبیح کے متعلق آپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ترغیب دلائی لیکن اس کا خود پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، نماز کے لیے اذان دینے کا بھی یہی معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عمل کی ترغیب تو ثابت ہے لیکن آپ نے خود اس پر عمل نہیں کیا، بلکہ مختلف مقامات پر اپنے جانثاروں میں سے کسی کو اذان کے لیے تعینات فرمایا، چنانچہ مدینہ طیبہ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور مکہ مکرمہ میں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اس عمل کے لیے مامور تھے، البتہ بعض ضعیف روایات میں اس امر کی تصریح ہے کہ دوران سفر، بارش کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دی تھی جیسا کہ درج ذیل روایت میں اس کی وضاحت ہے: ’’حضرت یعلیٰ بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہ تھے، ہم ایک تنگ مقام پر پہنچے جہاں نماز کا وقت آ گیا، اس وقت اوپر سے بارش برسنے لگی اور نیچے کیچڑ تھا، ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اذان دی اور اقامت کہی پھر آپ سواری پر ہی آگے بڑھے اور ساتھیوں کو اشارہ سے نماز پڑھائی، اس دوران سجدہ کے لیے رکوع سے زیادہ جھکتے تھے۔‘‘ [4] امام ترمذی نے ایک راوی عمر بن رباح البلخی کی وجہ سے اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، بلکہ امام بیہقی نے صراحت کی ہے کہ مذکورہ روایت کمزور ہے۔ 5 محدثین کرام نے صراحت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اذان نہیں دی تھی
[1] صحیح مسلم، المساجد: ۶۷۳ [2] ابوداود، الصلوۃ: ۵۸۲۔ [3] مسند امام احمد،ص:۴۳۶،ج۳۔ [4] جامع ترمذی، الصلوٰۃ: ۴۱۱۔ 5 بیہقی،ص:۷،ج۲۔