کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 134
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو صعصعہ انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ تو جنگل میں اپنی بکریوں کے پاس رہنا پسند کرتا ہے، اگر تو نماز کے لیے اذان کہے تو اپنی آواز کو اذان دیتے ہوئے خوب اونچا کرو، جہاں تک تیری آواز جائے گی وہاں کی ہر چیز تیرے لیے گواہی دے گی۔ [1] اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ اکیلا آدمی بھی نماز باجماعت ادا کر سکتا ہے۔ ٭ اگر امام کے ساتھ کوئی دوسرا آدمی ہے تو امام کو چاہیے کہ اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرے وہ خواہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت اپنی دائیں جانب کھڑا کر کے نماز باجماعت ادا کی تھی۔[2] اگر امام کے علاوہ دو یا اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو امام انہیں اپنے پیچھے کھڑا کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے دائیں جانب کھڑا کیا پھر ایک دوسرا شخص آ گیا تو وہ آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو دھکیل کر اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ [3] البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دو مقتدیوں کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کر لیتے تھے۔ [4]لیکن یہ موقوف روایت ہے جسے مرفوع حدیث کے مقابلہ میں مرجوح قرار دیا جائے گا۔ ٭ اگر مقتدیوں میں کوئی عورت بھی ہے تو وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہو گی اگرچہ وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ اپنے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی تو میں اور ایک دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور ہماری والدہ ام سلیم ہم سب کے پیچھے تھیں۔ [5] صورت مسؤلہ میں عورت امام کے پیچھے ہی کھڑی ہو گی خواہ اکیلی ہو یا اس کی ہمراہ بچے بھی ہوں وہ کسی صورت میں مردوں کے برابر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ (واللہ اعلم) امام کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو آگے کرنا سوال:ایک عالم دین کسی مسجد میں مستقل طور پر امام اور خطیب ہیں، لیکن مسجد کی انتظامیہ ان کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے عالم دین کو جمعہ کے لیے منبر پر اور نماز کے لیے مصلیٰ پر کھڑا کر دیتی ہے، کیا ایسا کرنا قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے؟ جواب:ہمارے ہاں ایسے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہونے چاہئیں، اگر امام یا خطیب نے کہیں جانا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ قبل از وقت انتظامیہ کو مطلع کرے تاکہ وہ کوئی متبادل بندوبست کر سکیں اور اگر انتظامیہ نے کسی کو دعوت دینی ہے تو اس کے متعلق امام یا خطیب سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اوقات کو مصروف کر لے، لیکن اکثر وبیشتر اس سلسلہ میں ہم لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ خطباء ایسے خود سر ہوتے ہیں کہ انتظامیہ کو اطلاع دئیے بغیر اپنا جمعہ کسی دوسرے مقام پر دے دیتے ہیں اور کسی مقام پر انتظامیہ پر دولت کا بھوت سوار ہوتا ہے وہ امام یا خطیب کو غلام اور نوکر خیال کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں کسی دوسرے کو منبر پر بیٹھا دیتے ہیں یا مصلیٰ جماعت پر کھڑا کر دیتے ہیں، جبکہ امام یا خطیب کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا، ہمارے
[1] صحیح بخاری، الاذان: ۶۰۹۔ [2] صحیح بخاری، الاذان :۷۲۸۔ [3] صحیح مسلم،الزہد:۳۰۱۰۔ [4] بیہقی،ص:۸۳،ج۲۔ [5] صحیح البخاری، الاذان:۲۷۲۷۔