کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 133
تشدد کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
کیا نماز اشراق یا نماز چاشت بدعت ہے؟
سوال:نماز اشراق یا نماز چاشت کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ صحابہ کرام نے اسے بدعت قرار دیا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب:نماز چاشت وہ نماز ہے جو طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہے اسے نماز اشراق اور صلوٰۃ اوابین بھی کہا جاتا ہے یہ نماز شرعاً مشروع ہے اور بڑی اہمیت کی حامل ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی تھی پہلی یہ کہ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا، دوسری چاشت کی دو رکعت ادا کرنا اور تیسری یہ کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔ [1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کو بایں طور پر اجاگر فرمایا، آپ فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک کے لیے صبح صبح تمام جوڑوں کا صدقہ اداکرنا ضروری ہے، ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تحمید صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، اچھی بات کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے، ان تمام صدقات سے نماز چاشت کی دو رکعت کفایت کر جاتی ہیں۔ [2]
یہ تمام احادیث صلوٰۃ چاشت کی مشروعیت کی واضح دلیل ہیں، اس لیے اسے بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے، البتہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اسے بدعت کہا تھا، ممکن ہے کہ انہیں مشروعیت کی احادیث نہ پہنچی ہوں یا وہ لوگ کسی خاص حیثیت پر ادا کرتے ہوں جسے دیکھ کر آپ نے اسے بدعت قرار دیا ہے، بہرحال نماز چاشت اور اشراق مشروع ہے اور ایک مستحب عمل ہے، ہمیں کوشش کر کے اس کا اہتمام کرنا چاہیے، اس کی کم از کم دو رکعت ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں ادا کی تھیں۔ [3]
اہل خانہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا
سوال:ہم میاں بیوی اور بچے رات دیر سے اپنے گھر واپس آئیں، اگر گھر میں نماز باجماعت ادا کرنا ہو تو بیوی کو اپنے ساتھ کھڑا کیا جائے اور بچے پیچھے کھڑے ہوں یا کوئی اور صورت ہے؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں آگاہ کریں۔
جواب:گھر میں نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے، خاص طور پر جن خواتین و حضرات پر مسجد میں جانا ضروری نہیں وہ ضرور اس کی پابندی کریں، متعدد افراد کے لحاظ سے نماز باجماعت کی کئی ایک صورتیں ممکن ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
اکیلا آدمی بھی جماعت سے نماز ادا کر سکتا ہے خواہ وہ خاتونِ خانہ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ایک حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۸۱۔
[2] صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین: ۷۲۰۔
[3] صحیح بخاری، الصلوٰۃ: ۳۵۷۔