کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 128
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے متعلق واقعی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے سوال میں ذکر کردہ تبصرہ کیا ہے کہ اس کی سند متصل نہیں ہے۔ [1]
اس تبصرہ کے باوجود لکھتے ہیں کہ اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ سجدہ اور رکوع میں کم از کم تین تسبیحات ضرور کہتے ہیں لہٰذا اس سے کم تعداد اختیار نہ کرے [2]
ان تسبیحات کے پڑھنے کے متعلق حضرت ابو بکر، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں جنہیں علامہ ہیثمی نے بیان کیا ہے۔ [3] مولانا عبیداللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں انفرادی طور پر کچھ کلام ہے تاہم کثرت طرق سے انہیں تقویت پہنچتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو مضبوط کر دیتی ہیں لہٰذا مجموعی طور پر قابل حجت ہیں اور مطلوب کے لیے دلیل بن سکتی ہیں۔ [4]
ہمارے رجحان کے مطابق سبحان ربی العظیم کو رکوع میں اور سبحان ربی الاعلیٰ کو سجدہ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کے حوالے سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے اور ان تسبیحات کی تعداد کم از کم تین ہونی چاہیے جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے اور ترمذی کی روایت بھی کثرت طرق کی بناء پر حسن درجہ کی ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
تحیۃ المسجد میں دعائے استخارہ پڑھنا
سوال بعض لوگ ہر روز نماز استخارہ پڑھنے کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟ نیز تحیۃ المسجد اور صبح کی سنتوں میں دعائے ستخارہ پڑھی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے اس کی وضاحت کریں۔
جواب نماز استخارہ اس وقت مشروع ہے کہ جب انسان کوئی کام کرنا چاہے لیکن یہ واضح نہ ہو کہ یہ کام کرنا بہتر ہے یا اس کے نہ کرنے میں بھلائی ہے، ایسے حالات میں دعائے استخارہ کی جائے۔ جب یہ بات بالکل واضح ہو کہ اس کام کا کرنا یا نہ کرنا بہتر ہے تو پھر استخارہ کی ضرورت نہیں، اگر کسی انسان کو ہر روز کسی کام کے بارے میں یہ مشکل درپیش ہو تو ہر روز استخارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے بغیر ہر روز استخارہ کرنے کو معمول بنانا سنت سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے کام سر انجام دیتے اور انہیں باضابطہ پروگرام کے تحت عمل میں لاتے لیکن ایسے کاموں کے لیے استخارہ کا عمل آپ سے ثابت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جو کام انسان کے ذمے ہیں، ان کے لیے استخارہ مشروع نہیں، مثلاً انسان اگر نماز پڑھنے یا زکوٰۃ دینے کا ارادہ کرے تو استخارہ کی کوئی ضرورت نہیں، اسی طرح انسان کے عام معمولات کے لیے بھی استخارہ فائدہ مند نہیں ہے جیسے کھانے، پینے یا سونے کا ارادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح بیٹے یا بیٹی کی شادی کے لیے استخارہ نہیں کرنا چاہیے البتہ ان کے انتخاب کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے، نیزماضی میں ہونے والے واقعات مثلاً چوری وغیرہ کی برآمدگی کے لیے استخارہ کرنا بھی درست نہیں ہے، ہمارے نزدیک ہر روز نماز استخارہ پڑھنے کا معمول بنانا محل نظر ہے، ہاں کسی معاملہ میں واقعی ضرورت ہے تو استخارہ کیا جا سکتا ہے۔
[1] ترمذی، ابواب الصلوٰۃ:۲۶۱۔
[2] حوالہ مذکور۔
[3] مجمع الزوائد،ص:۱۲۸،ج۲۔
[4] مرعاۃ المفاتیح ص:۴۳۵، ج۲۔