کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 126
پہلے دینا درست نہیں ہے۔ البتہ فجر کی دو اذانیں مشروع ہیں ایک اذان سحر جو طلوع فجر سے پہلے دی جاتی ہے اس کے بعد روزے دار کے لیے کھانا پینا تو جائز ہے لیکن نماز فجر پڑھنا جائز نہیں ہے اور دوسری اذان نماز فجر کی ہے اس کے بعد کھانا پینا منع ہے اور نماز فجر ادا کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر مؤذن اذان سحر، اذان نماز فجر سے دس پندرہ منٹ پہلے دیتا ہے تو جائز ہے لیکن اگر وہ نماز فجر کے وقت سے پہلے صلوٰۃ صبح کی اذان کہتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے طلوع فجر سے پہلے اذان کہہ دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جاؤ اور اعلان کرو خبردار! بندہ سو گیا تھا، خبردار بندہ سو گیا تھا، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جا کر اعلان کیا خبردار! بندہ سو گیا تھا۔ [1]
اس حدیث کی بناء پر نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان دینا صحیح نہیں ہے ہاں اگر غلطی سے تھوڑا فرق ہو تو اذان دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر وقفہ بہت زیادہ ہو تو اذان دوبارہ کہی جائے تو قبل از وقت دی ہوئی اذان کے متعلق اعلان کر دیا جائے کہ یہ غلطی سے ہوئی ہے، بعض اہل علم کا موقف ہے کہ صبح کی اذان فجر کاذب میں کہی جائے تاکہ صبح صادق ہوتے ہی نماز کھڑی کی جا سکے اور وہ اندھیرے میں پڑھی جائے، لیکن یہ مؤقف محل نظر ہے اور طریقہ نبوی کے خلاف ہے۔ بہرحال ہمارا رجحان یہ ہے کہ صبح کی اذان وقت سے پہلے کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ کچھ ضرورت مند حضرات قبل از وقت کہی گئی اذان سن کر نماز پڑھ لیں گے جو قبل از وقت ہو گی، لہٰذا نماز فجر کے لیے صبح کی اذان فجر طلوع ہونے پر ہی دی جائے۔ (واللہ اعلم)
دوران نماز کندھے سے کندھا ملانا
سوال:کیا دوران نماز کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے؟ اس کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی وضاحت وارد ہے؟
جواب:احادیث میں صف بندی کا معیار یہ ہے کہ صف میں کھڑے ہوئے نمازیوں کے ٹخنے ایک دوسرے کے برابر ہوں صرف انگلیوں کے کناروں کا ملنا کافی نہیں ہے، ٹخنے ملانے سے صفوں میں برابری بھی آتی ہے اور درمیان میں آنے والا خلا بھی پر ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابرکرو، خلا کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہو جاؤ، شیطان کے لیے صف میں خالی جگہیں نہ چھوڑو، جس نے صف کو ملایا اللہ اسے ملائے گا اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اس سے تعلق کاٹ لے گا۔ [2]
ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ مل جاؤ اور برابر ہو جاؤ۔‘‘ [3]
نمازیوں کے پاؤں مختلف ہوتے ہیں، کسی کا پاؤں لمبا ہوتا ہے اور کسی کا چھوٹا ہوتا ہے لہٰذا صفوں کی درستی اور برابری ٹخنوں ہی
[1] ابوداود الصلوٰۃ: ۵۳۲۔
[2] داود، الصلوٰۃ:۶۶۶۔
[3] مسند امام احمد،ص۲۶۸،ج۳۔