کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 125
ہے یا امام کا سترہ ہی سب مقتدیوں کا سترہ ہے، اس سترہ کے آگے سے گزرنا منع ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، میں اس وقت گدھی پر سوار ہو کر صف کے آگے سے گزر گیا اور مجھے کسی نے منع نہیں کیا[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جماعت کھڑی ہو تو مقتدیوں کے آگے سے گزرنا جائز ہے البتہ امام کے آگے سے نہیں گزرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے آگے سے بھی نہیں گزرنا چاہیے۔ نادانستہ ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لینا سوال:میں نے فجر کی نماز پڑھی، نماز سے فراغت کے بعد پتہ چلا کہ میرے کپڑے نجاست آلود تھے، اب کیا مجھے دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے یا اسے دھرانے کی ضرورت نہیں؟ جواب:اس مسئلہ میں اختلاف ہے، کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ایسے شخص کی نماز باطل ہے اسے دوبارہ پڑھنا ہو گی اور کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اگر بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے نجاست آلود کپڑوں میں نماز پڑھ لی جائے تو اس کی نماز صحیح ہے، اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دوسرا مؤقف صحیح ہے کہ جب کوئی نماز سے فارغ ہو پھر اپنے کپڑوں کو نجاست آلود دیکھے تو اس کی نماز درست ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دوران نماز جوتیاں اتار دیں، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کا یہ عمل دیکھا تو انہوں نے بھی اپنی جوتیاں اتار دیں، نماز سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تم نے اپنی جوتیاں کیوں اتاریں؟ تو انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو جوتیاں اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیں، آپ نے فرمایا کہ میرے پاس تو حضرت جبریل علیہ السلام آئے تھے انہوں نے بتایا کہ آپ کے جوتے نجاست آلود ہیں اس لیے میں نے انہیں اتار دیا تھا۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کردہ نماز کو نہیں دھرایا، بلکہ آپ نے جوتے اتارنے کی وجہ سے بیان کر دی، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی لا علمی میں نجاست آلود کپڑوں میں نماز پڑھ لے اسے فراغت کے بعد پتہ چلے تو نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) قبل از وقت اذان دینا سوال:ہمارے علاقہ میں حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرتب کردہ دائمی ٹائم ٹیبل کے مطابق اذان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض مساجد میں مذکورہ ٹائم ٹیبل سے دس، پندرہ منت پہلے اذان فجر دی جاتی ہے، قبل از وقت اذان فجر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کتاب و سنت کے مطابق راہنمائی کریں۔ جواب:نماز کی بروقت ادائیگی ضروری ہے، چونکہ اذان، نماز کے وقت کی ایک علامت ہے اس لیے اذان وقت سے
[1] صحیح بخاری، العلم:۷۶۔ [2] ابوداود:۶۵۰۔