کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 120
واضح رہے کہ جب بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آجاتے ہیں چنانچہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے کے اوپر رکھا۔ [1] اس حدیث میں قدرے ضعف ہے لیکن دیگر احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے، لہٰذا دوران نماز اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھنا چاہیے، اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ہاتھوں کو بائیں جانب اپنے دل پر باندھتے ہیں، یہ عمل بھی بے اصل بلکہ بدعت ہے، زیر ناف ہاتھ باندھنے کے متعلق ایک اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بہت قوی ہے، ہاتھ باندھنے کے متعلق مرد اور عورت میں فرق کرنا بھی خود ساختہ ہے کیونکہ اصل یہ ہے کہ احکام میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، البتہ کتاب و سنت میں اگر تفریق کی کوئی دلیل موجود ہو تو الگ بات ہے، لیکن اس سلسلہ میں ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی جس سے پتہ چلے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے سے مرد اور عورت میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) بے ہوشی کی نماز سوال:اگر کوئی آدمی ہسپتال میں مسلسل دو دن بے ہوش رہا تو کیا ہوش آنے کے بعد اسے فوت شدہ نمازیں پڑھنا ہوں گی؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔ جواب:شعور گم ہونے کی صورت میں انسان کے ذمہ مالی حقوق ساقط نہیں ہوتے لیکن بدنی عبادات مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ ساقط ہو جاتے ہیں البتہ ہوش آنے کے بعد رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہو گی لیکن نمازوں کی ادائیگی اس کے ذمے نہیں ہے، کیونکہ یہ سوئے ہوئے شخص کی طرح نہیں ہے کہ وہ جب بیدار ہو تو فوت شدہ نمازوں کو ادا کرے۔ اس لیے کہ سوئے شخص میں ادراک ہوتا ہے اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوشی میں مبتلا انسان کو اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، بے ہوش انسان کی فوت شدہ نمازوں کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں: 1) جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ بے ہوشی کے دوران رہ جانے والی نمازوں کی قضا اس کے ذمے نہیں ہے چنانچہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ پر ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا نہیں دی تھی۔[2] 2) کچھ اہل علم کا مؤقف ہے کہ بے ہوش آدمی اپنی فوت شدہ نمازیں ادا کرنے کا پابند ہے وہ اس سلسلہ میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرتے ہیں کہ ان پر ایک دن اور ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے ہوش میں آنے کے بعد فوت ہونے والی نمازوں کی قضا دی تھی۔ [3] ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا مؤقف صحیح ہے جس کی ہم نے پہلے ہی وضاحت کر دی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح ابن خزیمہ،ص: ج۱،ص: ۲۴۳۔ [2] مصنف عبدالرزاق،ص:۹۷۴،ج۲ [3] مصنف عبدالرزاق،ص:۴۷۹،ج۲۔