کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 118
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں کم از کم دو رکعت پڑھنا مشروع ہے، اس میں اقامت کو بھی اذان سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بناء پر اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو طلوع فجر کے بعد کہی جاتی ہے اور نماز فجر کے وقت کی علامت ہے، اس سے مراد اذانِ سحری نہیں جو سوتے ہوؤں کو بیدار کرنے یا تہجد پڑھنے والوں کو واپس آنے کے لیے کہی جاتی ہے۔ ثانیاً: مسجد نبوی میں دو مؤذن تھے، جن کی صراحت کتب حدیث میں موجود ہے، ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ لیکن مکہ مکرمہ میں صرف ابو محذورہ رضی اللہ عنہ ہی مؤذن تھے اور وہ صبح کی اذان دیتے تھے جو نماز فجر کے لیے ہوتی تھی، اور اسی اذان میں وہ الصلوٰۃ خیر من النوم کہا کرتے تھے۔ ثالثاً: سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ جب مؤذن فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم دو مرتبہ کہے۔ [1] جب صحابی کسی حدیث کو سنت کے حوالے سے بیان کرتا ہے تو وہ حدیث مرفوع ہوتی ہے، اس مؤقف کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک صبح سخت ٹھنڈک میں اپنی بیوی کے ساتھ اس کی چادر میں لیٹا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز صبح کے لیے اذان دینا شروع کر دی۔ جب میں نے اذان سنی تو دل میں کہا کاش! مؤذن یہ کلمات کہہ دے’’اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں‘‘ وہ فرماتے ہیں کہ جب مؤذن نے الصلوٰۃ خیر من النوم کہا تو اس کے بعد یہ الفاظ بھی کہے اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں۔[2] اس حدیث میں صراحت ہے کہ مؤذن نے الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ نماز فجر کی اذان میں کہے تھے اگر الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ طلوع فجر سے پہلے کی اذان میں ہوتے تو حضرت نعیم رضی اللہ عنہ کو یہ تمنا کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی کہ کاش! مؤذن یہ الفاظ کہہ دے ’’اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں نہیں جو طلوع فجر سے پہلے کہی جاتی ہے بلکہ فجر کی دوسری اذان میں کہے جائیں جو طلوع فجر کے بعد دی جاتی ہے اور جو نماز فجر کے وقت کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھی ہے۔ (واللہ اعلم) دوران نماز سلام کا جواب دینا سوال:کیا دوران نماز سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے، اس کی کتاب و سنت سے کوئی دلیل ہو تو ضرور ذکر کریں، پھر اگر جواب دینا جائز ہے تو کیسے دیا جائے؟ جواب:اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہے اس دوران باہر سے آنے والا شخص سلام کہے تو دوران نماز وعلیکم السلام کہنے کے بجائے وہ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے اس کا جواب دے گا، چنانچہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا میں نے حضرت
[1] سنن دارقطنی، ص:۲۴۳،ج۱۔ [2] بیہقی،ص:۲۴۳،ج۱۔