کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 117
کرو، ہاتھوں کی پشت سے نہ مانگا کرو۔‘‘[1] دعا کا یہ ادب عام دعاؤں کے لیے ہے مگر نماز استسقاء میں جب قحط اور خشک سالی دور کرنے کی دعا کی جائے تو نیک شگونی کے طور پر ہاتھوں کی پشت اوپر کی جانب کی جائے بلکہ مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری دعا میں ہاتھوں کی پشت اوپر نہ رکھی جائے بلکہ ایک دفعہ اشارہ کر دیا جائے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹی سمت سے آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ فرمایا۔ [2] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بلاؤں اور مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے جب دعا کی جائے تو الٹے ہاتھوں سے دعا مانگنا مشروع ہے اور جب کوئی چیز مانگنا ہو تو سیدھے ہاتھ آسمان کی طرف کیے جائیں۔ [3] ہاتھ الٹے کرنے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت کو تبدیل کر دے جیسا کہ چادر الٹنے میں حکمت بیان کی جاتی ہے، البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعاء استسقاء الٹے ہاتھوں سے کی جائے، آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے لیے اس طرح دعا کرتے تھے پھر انہوں نے اپنے ہاتھ لمبے کر کے دکھائے اور اپنی ہتھیلیوں کو زمین کی طرف کیا۔ [4] بہرحال ہاتھوں کی پشت کو آسمان کی طرف کرنا اور چادروں کو پلٹنا یہ نیک فالی کے طور پر ہے یعنی اے اللہ! جس طرح ہم نے اپنے ہاتھ الٹے کر لیے ہیں اور چادروں کو پلٹ لیا ہے تو بھی موجودہ صورت حال کو اس طرح بدل دے یعنی بارش برسا کر قحط سالی ختم کر دے اور تنگی کو خوشحالی میں بدل دے، لیکن نماز وتر کی طرح دوران نماز دعا کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) الصلوٰۃ خیر من النوم کہنے کا اصل مقام سوال:حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو دوہری اذان کی تعلیم دی اور اس حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ جب صبح کی پہلی اذان ہو تو اس وقت ’’الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہا جائے، اس روایت کے مطابق ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہنے چاہئیں جب کہ ہماری تمام مساجد میں ان الفاظ کو دوسری اذان میں کہا جاتا ہے، اس کے متعلق ہمیں صحیح مؤقف سے آگاہ کریں۔ جواب:بلاشبہ سوال میں مذکورہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں مروی ہے۔[5] اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں، دوسری اذان میں انہیں نہیں کہنا چاہیے، لیکن یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔ اولاً: حدیث میں ا ذان اول، اقامت کے اعتبار سے ہے کیونکہ شریعت میں تکبیر کو بھی اذان کہا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہرد واذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ [6]
[1] ابوداود، الوتر:۱۴۸۶۔ [2] مسلم، الاستسقاء:۸۹۶۔ [3] فتح الباری،ص:۶۶۸،ج۲۔ [4] ابوداود، الاستسقاء:۱۱۷۱۔ [5] ابوداود، الصلوٰۃ:۵۰۱، نسائی والاذان:۶۳۴۔ [6] بخاری، الاذان:۶۲۴۔