کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 115
حالت میں امام ہے وہ حالت اختیار کرے۔ اگر امام سجدہ میں ہے تو اپنے ہاتھوں کو سینہ پر باندھے بغیر اللہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’سجدہ کے وقت اللہ اکبر کہتا ہوا نیچے جھکے۔‘‘[1] پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے۔ [2] دوران جماعت آنے والے نمازی کو امام کی حالت اختیار کرنے کے لیے سجدہ کے وقت دوبارہ تکبیر کہنا ہو گی، پہلی تکبیر کافی نہیں ہو گی۔ (واللہ اعلم) مقامی امام کا چند میل پر جا کر قصر نماز پڑھنا سوال:ہم چند ساتھیوں کو اپنے امام مسجد کے ہمراہ ایک قریبی گاؤں جانے کا اتفاق ہو اجو کہ ہمارے گاؤں سے تقریباً دو میل کی مسافت پر ہے، ہمارے امام صاحب نے ہمیں نماز ظہر پڑھاتے وقت کہا کہ میں مسافر کی نماز قصر پڑھوں گا، آپ پوری پڑھ لیں، ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میرا اصلی وطن چیچہ وطنی ہے جو یہاں سے تقریباً دو سو میل ہے، لہٰذا میں مسافر ہوں حالانکہ ہمارے امام کم و بیش ایک سال سے ہمارے ہاں مقیم ہیں ، اور ہمیں پوری نماز پڑھاتے ہیں، کیا امام صاحب کا نماز قصر کے متعلق استدلال صحیح ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟ جواب:فقہاء امت نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1) وطن اصلی: وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہو، اور اپنے والدین یا اہل و عیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔ 2) وطن اقامت: وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کے لیے تردد کے بغیر رہائش رکھے ہو۔ احکام کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، سوال میں ذکر کردہ امام مسجد ایک سال سے کسی گاؤں میں بغرض امامت و خطابت مقیم ہیں اور وہاں نماز پوری پڑھاتے ہیں۔ مذکورہ گاؤں ان کے لیے وطن اقامت کی حیثیت رکھتا ہے، ایسے حالات میں اگر وہ دو یا تین میل کی مسافت پر واقع کسی گاؤں جاتا ہے تو اسے پوری نماز پڑھنا ہو گی، واضح رہے کہ شرعی مسافت سے مراد یہ ہے کہ دوران سفر، قیام پڑاؤ یا منزل مقصود پر پہنچنے اور وہاں سے روانگی کے دن کے علاوہ اگر تین دن اور تین رات ٹھہرنے کا ارادہ یقینی ہو تو نماز قصر ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ شرعی مسافت ہے اگر اس سے زیادہ دنوں کا قیام مقصود ہو تو نماز پوری پڑھنا ہو گی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھویں ذوالحجہ صبح کی نماز ادا کر کے منیٰ روانہ ہوئے یعنی آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ، چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام کیا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے، اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد صرف تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔‘‘ [3]
[1] صحیح بخاری، الاذان، باب:۱۲۸۔ [2] صحیح بخاری، الاذان:۸۰۳۔ [3] مسلم، الحج:۳۲۹۷۔