کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 113
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب سورج کو گرہن لگا تو آپ نے دو رکعات میں چھ رکوع اور چار سجدے کیے۔[1]
اسی طرح حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے وقت دو رکعات میں آٹھ رکوع اور چار سجدے کیے۔ [2]
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی پہلی رکعت میں طویل قیام فرمایا، اس میں پانچ رکوع اور دو سجدے کیے پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔ [3]
بعض روایات میں ایک رکعت میں ایک ہی رکوع کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ [4]
ہمارے رجحان کے مطابق ایک رکعت دو رکوع والی روایات راجح ہیں کیونکہ صحیحین کی روایات اس پر متفق ہیں، دیگر روایات مرجوح ہیں اور ان کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ نماز کسوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ایک مرتبہ ہی ادا کی ہے، اس سلسلہ میں ایک صحیح روایت درج ذیل ہے:
حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو آپ نے صلوٰۃ کسوف ادا فرمائی، اس میں سورۂ بقرہ کی قراء ت کے برابر قیام فرمایا پھر رکوع کیا جو بہت طویل تھا، اس کے بعد رکوع سے کھڑے ہوئے تو طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر دوبارہ لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کم تھا پھر سجدہ ریز ہو گئے۔ اس کے بعد اٹھے اور طویل قیام فرمایا اور وہ پہلے قیام سے قدرے کم تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر سجدہ کیا، جب سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا، اس کے بعد آپ نے لوگوں کو وعظ فرمایا۔ [5]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام بخاریرحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک دو رکوع والی روایات راجح ہیں۔ (واللہ اعلم) [6]
نماز عصر کا وقت
سوال:نماز عصر کا وقت ایک مثل سایہ سے شروع ہوتا ہے، کیا اس سے پہلے عصر کی اذان دی جا سکتی ہے؟
جواب:حضرت جبرائیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں نمازوں کے اوقات بیان ہوئے ہیں، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو گیا۔‘‘ [7]
جب دوسرے دن حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس وقت ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو چکا تھا۔‘‘[8]
شریعت اسلامیہ میں اذان اس وقت دی جاتی ہے جب نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے کیونکہ اذان کو نماز کے وقت کی علامت قرار
[1] صحیح مسلم، الکسوف:۹۰۴۔
[2] صحیح مسلم، الکسوف:۹۰۹۔
[3] ابوداود، الصلوٰۃ:۱۱۸۲۔
[4] مستدرک حاکم، ص:۳۳۰،ج۱۔
[5] صحیح بخاری، الکسوف:۱۰۵۲۔
[6] اد المعاد،ص:۴۵۳،ج۱۔
[7] جامع ترمذی، المواقیت:۱۴۹۔
[8] ابوداود، المواقیت:۳۹۳۔