کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 112
وہ رکعت باطل ہو جاتی ہے جس میں وہ عمل چھوٹ گیا ہو اور بعد والی رکعت خود بخود اس متروکہ عمل والی رکعت کے قائم مقام ہو جاتی ہے، دوران نماز اس قسم کے عمل کو رکن کہا جاتا ہے، رکوع اور سجدہ بھی ارکان نماز میں سے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا ﴾[1] ’’اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرتے رہو۔‘‘ اس آیت کریمہ سے دوران نماز رکوع اور سجدہ کی رکنیت ثابت ہوتی ہے، علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوران نماز ہر رکعت میں رکوع اور سجدہ کرنا ثابت ہے لہٰذا قرآن و سنت سے رکوع اور سجدہ کی فرضیت ثابت ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو رکوع اور سجدہ کی ادائیگی میں تبدیلی ہو سکتی ہے مثلاً میدان جنگ میں اگر نماز ادا کرنا ہو تو چلتے پھرتے نماز ادا کی جا سکتی ہے اور اس میں رکوع اور سجدہ کی ادائیگی عام طریقہ سے ہٹ کر ہو گی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’دشمن کا پیچھا کرنے والے یا جس کا دشمن پیچھا کر رہا ہو وہ سواری کی حالت میں اشارے سے نماز ادا کر لے۔‘‘ [2] اسی طرح اگر سفر کے دوران نماز ادا کرنا پڑے اور قیام ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھی جا سکتی ہے، اس حالت میں بھی رکوع اور سجدہ عام طریقے کے مطابق ادا نہیں کیا جا سکے گا بلکہ حدیث میں اس کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل پڑھتے اور سجدہ کرتے وقت رکوع کی نسبت کچھ زیادہ جھکتے تھے۔ [3] نیز جب انسان بیمارہو اور بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو بھی اشارہ سے رکوع اور سجدہ کیا جا سکتا ہے، الغرض رکوع اور سجدہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، البتہ ان کی ادائیگی میں تبدیلی ہو سکتی ہے، بیٹھ کر، لیٹے لیٹے نماز پڑھتے وقت رکوع اور سجدہ کرنا ہو گا، اس کے بغیر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایسے رکن ہیں کہ ان کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ (واللہ اعلم) نماز کسوف کا طریقہ سوال:نماز گرہن کے متعلق احادیث میں بہت اختلاف ہے، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دورکوع کیے جب کہ بعض احادیث میں تین، چار اور پانچ رکوع کرنے کا ذکر ہے۔ حالانکہ ہم نے سنا ہے کہ نماز گرہن عہد نبوی میں صرف ایک مرتبہ پڑھی گئی تھی، اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ جواب:اس میں شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد نماز گرہن ادا فرمائی، جب آپ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام فوت ہوئے اور سورج کو گرہن لگا، عام لوگوں نے اسے آپ کے لخت جگر کی وفات کے ساتھ وابستہ کیا تو آپ نے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے نماز گرہن کا اہتمام کیا کہ سورج گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ چاند اور سورج اللہ کی نشانیاں ہیں، اللہ چاہے اسے بے نور کر کے لوگوں کے لیے سامان عبرت بنا دیتا ہے۔ اس امر میں بھی شک نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں مختلف احادیث وارد ہیں، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
[1] ۲۲/الحج:۷۷۔ [2] صحیح بخاری، الخوف، باب نمبر۵۔ [3] ابوداود، صلاۃ السفر:۱۲۲۷۔