کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 108
سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ نمازی دوران نماز اپنی انگلیوں کو چٹخاتا رہے۔ 4) حرکتِ حرام: اس سے مراد وہ حرکت ہے جو بہت زیادہ اور مسلسل ہو اور تمام نماز میں ایسی حرکت کو جاری رکھنا نماز کوباطل کر دیتا ہے۔ 5) حرکت مباح: اس سے مراد وہ حرکت ہے جو مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ ہو مثلاً ضرورت پیش آنے پر بدن پر کھجلی کرنا، بہرحال نماز انتہائی مقدس عمل ہے اسے نہایت خشوع سے ادا چاہیے۔ دوران نماز بلاوجہ مسلسل ڈکارنا یا اپنی انگلیوں کے پٹاخے نکالنا اس خشوع کے منافی ہے جو نماز کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنا سوال:نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا نماز فجر کے بعد سجدہ کرنے کی ممانعت حدیث سے ثابت ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:سجدہ تلاوت کے لیے نماز کی شرائط نہیں ہیں، علماء سلف میں سے کسی نے اسے نماز نہیں کہا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سجدہ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے اس لیے اس کے لیے شروط نماز مقرر نہیں کی جائیں گی، بلکہ یہ بغیر وضو کے بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اس کی دلیل ہے۔[1] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا حوالہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کیا کرتے تھے۔[2] اسی طرح نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، اس سلسلہ میں ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ حضرت ابو تمیمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نماز فجر کے بعد مدینہ طیبہ میں وعظ کرتا تھا، اس دوران آیتِ سجدہ پڑھنے پر میں سجدہ بھی کرتا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مجھے ایسا کرنے سے منع کرتے تھے لیکن میں باز نہیں آتا تھا، دو تین دفعہ ایسا ہوا آخر انہوں نے حدیث بیان کی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھتا رہا ہوں۔ وہ نماز فجر کے بعد سجدہ نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ [3] اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے شارح سنن ابی داؤد علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اوقات مکروہ میں سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے لیکن ظاہر حکم یہ ہے کہ اوقات مکروہ میں سجدہ تلاوت کیا جا سکتا ہے کیونکہ سجدہ تلاوت نماز نہیں۔ جن روایات میں اوقات مکروہ میں سجدہ کی ممانعت ہے اس سے مراد سجدہ تلاوت نہیں بلکہ سجدہ نماز ہے۔ [4] اس کے علاوہ مذکورہ حدیث کی سند کے متعلق علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ابو البحر البکراوی، عبدالرحمن بن عثمان ہے، جس کی موجودگی میں یہ حدیث قابل حجت نہیں رہتی۔[5] اس بنا پر نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسے بلاوضو بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
[1] مجموع الفتاویٰ،ص:۱۶۵،ج۲۳۔ [2] صحیح بخاری، سجود القرآن: ۱۰۷۱ تعلیقًا۔ [3] ابوداود، ابواب السجود: ۱۴۱۵۔ [4] عون المعبود،ص:۵۳۳،ج۱۔ [5] مختصر ابی داود،ص:۱۲۰،ج۲۔