کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 9
بڑھاتے گئے اور یہی زیادہ سوالات کرنے کا نقصان ہوتا ہے۔ شریعت اگر ایک حکم اجما لا بیان کرے تو اس کےاجمال سے فائدہ اٹھانے میں بھی مسلمانوں کو آسانی ہے، اجتہاد واستنباط کرکے اس کی تفصیلات معین کرکے مسلمانوں کے لئے مشکلات کاباعث نہیں بننا چاہیے۔ کثرت سوالات کی پابندی کے بعد صحابہ کرام نے اپنی دینی ودنیوی ضرورت پوری کرنے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے ایک اور انداز اختیار کیا کہ جب کوئی اجنبی آتا تو بہت خوش ہوتے کہ وہ سوال کرے گا او ر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے مستفید ہوں گے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غیر ضروری سوالات سے منع کردیاگیا تو ہم کسی عقل مند دیہاتی کے انتظار میں رہتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سنتے اور اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرتے۔ (صحیح مسلم الایمان 10) بلکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مدینہ میں کوئی دیہاتی آتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے چادر کاتحفہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے پر آمادہ کرتے کیونکہ خود اس حکم امتناعی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کو درست نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس سے ڈرتے تھے۔(مسند احمدج5ص 266) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے کی پابندی صرف مہاجرین اور مدینہ کے رہائش پذیر حضرات کےلیےتھی۔دیہاتی لوگ اس سے مستثنیٰ تھے۔ چنانچہ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک ماہ تک قیام کیا، ہجرت کرکے مدینہ آنے سے صرف یہی بات رکاوٹ تھی کہ اس طرح میں آپ سے دینی سوالات نہیں کرسکتا تھا۔ کیونکہ جب کوئی ہجرت کرکے مدینہ کا رہائشی بن جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات نہیں کرتا تھا۔(صحیح مسلم الاداب 15)درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ فضول اور بے فائدہ سوالات کرنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روک دیا گیا تھا، علامہ شاطبی نے سوالات کی چند ایک ممنوع صورتین بیان کی ہیں انہیں ذکر کیا جاتا ہے۔ 1۔ایسے سوالات جن میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ اور حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے باپ کی تعین کے لئے سوال کیا تھا اسی طرح ایک آدمی نے قیامت کے دن اپنے ٹھکانے کے متعلق دریافت کیا تھا۔(صحیح بخاری :العلم'80) 2۔دینی ضرورت پوری ہونے کے بعد بلاوجہ مزید سوالات کاسلسلہ جاری رکھنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت کو بیان فرمایا تو ایک آدمی نے سوال کردیا کہ ہرسال حج کرنافرض ہے۔حالانکہ فرضیت حج سے متعلق آیت کریمہ کے اطلاق سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں ایک دفعہ ہی حج کرنا کافی ہے نیز بنی اسرائیل کے گائے کے متعلق سوالات کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔(صحیح مسلم :الحج 412) 3۔ایسے معاملات کے متعلق سوالات کرنا جن کے متعلق شریعت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ شارع کا سکوت ہی اس کے جواز کی دلیل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:'' جس معاملہ کو میں نے چھوڑ دیا ہے تم بھی اسے چھوڑ دو تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے بلاوجہ اپنے انبیاء علیہ السلام سے اختلاف کرکے سوالات کی بھر مار کردی ۔''(صحیح مسلم :الحج 412)