کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 70
کی عادت کے مطابق عمل کرے۔یعنی وہ ہر مہینے چھ یاسات دن حیض کے شمار کرکے بقیہ ایام میں استحاضہ کے مطابق عمل کرے۔جیسا کہ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہا تھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بکثرت شدت سےخون آتا ہے کیا میں نماز روزہ ترک کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم روئی استعمال کرو، اس سے خون رک جائے گا۔''عرض کیا :خون کی مقدار اس سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی ر وئی وغیرہ کے استعمال سے بند نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:'' یہ رکضہء شیطان ہے تو اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات دن تک نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے تئیس یاچوبیس دن نماز پڑھ اور روزہ بھی رکھ۔''(ابو داؤد الطہارۃ287) واضح رہے کہ چھ یا سات دن اکثر عورتوں کی عادت کے مطابق ہیں۔وہ عور ت دیکھے میری عمر اور جسمانی صحت کس سے ملتی ہے اس کی عادت کے مطابق عمل کرے ، ہمارے فقہائے کرام نے اس مقام پر بہت عجیب وغریب صورتیں پید ا کی ہیں ،جنھیں ہم نے دانستہ نظرانداز کردیا۔ سوال۔ہم نے سنا ہے کہ وضو کے بعد درود بیٹھ کر پڑھنا چاہیے، چلتے ہوئے پڑھنے سے جوڑوں میں درد ہوجاتاہے۔کیا یہ صحیح بات ہے؟(غلام اللہ ۔شاہدرہ) جواب۔وضو کے بعد جو مسنون دعائیں پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے،ان میں سے سرے سے درودشامل نہیں ہے۔ویسے درود پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔البتہ اس کے لئے اپنی طرف سے کوئی ہیئت یا وضو کے بعد کی شرط عائد کرنا ناروا پابندی اور خود ساختہ طریقہ ہے، اس لئے بیٹھ کر وضو کرنے کے بعد بیٹھ کر درود پڑھیں یا کھڑے ہوکر اس میں کوئی حرج نہیں، نیز چلتے ہوئے پڑھنے سے جوڑوں میں درد والی بات بھی ایجاد شدہ ہے۔شریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ سوال۔وضو کرنے کے بعد دوران نماز اگر جسم کے کسی حصہ سے خون نکل آئے تو کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ جواب۔ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام بخاری نے متعدد ایسے آثار نقل کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کے بعد اگر جسم کے کسی حصے سے خون نکل آتا ہےتو وضو برقرار رہتا ہے۔اور اس سے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ سوال۔غسل جنابت کے وضوسے نماز پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں؟نیز غسل جنابت میں پاؤں کیسے دھوئے جائیں ؟ جواب۔اگر دوران غسل کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وضو ٹوٹ جائے تو اس وضو سے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غسل کے وقت) پہلے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا لیکن پاؤں نہیں دھوئے ، البتہ اپنی شرمگاہ اور جلد پر لگی آلائش کودھویا ،پھر تمام جسم پر پانی بہایا۔اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہوکر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔آپ کا غسل جنابت یہی تھا۔''(صحیح البخاری الغسل 249) سوال۔جسم کے کس کس حصے کے بال صاف کئے جائیں، نیز زیر ناف بالوں کو کتنے دنوں بعد صاف کرنا چاہیے۔ جواب۔بغلوں کے بال صاف کرنا اور اسی طرح زیر ناف بالوں کواتارنا امورفطرت سے ہے۔(صحیح البخاری الاستیذان 6297) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس قسم سے بالوں کو صاف کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ چالیس دن کی مدت مقرر