کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 7
بعض دفعہ معلوم شدہ حقائق کی تصدیق بھی سوال وجواب سے ہوتی تھی جیسا کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آتے ہی اپنے سخت رویے کی وضاحت کردی تھی کہ میں چند باتوں کی تصدیق سخت انداز سے کرنا چاہتا ہوں آپ محسوس نہ فرمائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جس انداز میں جو چاہو سوال کرو۔''(صحیح بخاری :العلم 63)
اکثر طور پر دین اسلام کی بنیادی باتوں کی تعلیم بھی سوال وجواب کی صورت میں دی جاتی جیسا کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل نجد کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس کے بال سفر کی وجہ سے پراگندہ تھے۔ہم اس کی آواز تو سنتے تھے لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو پتہ چلا کہ وہ ارکان اسلام کے متعلق سوال کررہا ہے۔(صحیح بخاری،الایمان 13)
اللہ تعالیٰ نے خود اس امت کو یہ انداز اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اگر تمھیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اہل ذکر سے دریافت کرلیا کرو۔‘‘(16/النحل :43)
اس قرآنی ہدایت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر دینی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تو سرخیل اہل ذکر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے، چنانچہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ابو اھاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کرلیا، بعد میں کسی سیا ہ فام عورت نے وضاحت کی، میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔اس لئے تمہارا نکاح درست نہیں ہے۔حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت سواری لی اور مکہ سے مدینہ کا سفر کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کے بعد انہوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی۔(صحیح بخاری :العلم 88)
قرآن کریم نے ((يسئلونك)) كے انداز سے کئی ایک مسائل کی نشاندہی کی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کے جوابات دیئے، کتب حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار فتاویٰ منقول ہیں جو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کرنے پرارشاد فرمائے۔ان کی تفصیل امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف ''اعلام الموقعین عن رب العالمین'' میں دیکھی جاسکتی ہے۔
بعض اوقات اس اجازت کے پیش نظر ایسے سوالات بھی سامنے آئے ہیں جو اللہ اور اس کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مزاج کے خلاف تھے اور ان میں دنیاوی اور دینی فائدہ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ نے محدود پیمانے پر اس سلسلے میں کچھ پابندی عائد کردی، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''ایمان والو ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمھیں ناگوار ہوں اور اگرتم کوئی بات اس وقت پوچھتے ہو جبکہ قرآن نازل ہورہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کردی جائے گی۔اب تک جو ہوچکا اس سے اللہ تعالیٰ نے درگزر کرلیا ہے، وہ درگزرنے کرنے والا اوربردبار ہے، تم سے پہلے کچھ لوگوں نے ایسے ہی سوال کیے تھے پھر انہی باتوں کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہوگئے۔''(المائدہ:5/101۔102)
اس کے بعد لوگوں پرپابندی عائدکردی گئی کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوالات نہ کیے جائیں جن میں کوئی دینی یا دنیوی