کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 63
یا رضی اللہ عنہ کا اختصار یا اس کی علامت نہ لکھی جائے اور نہ ہی باربار لکھے جانے سے کسی قسم کی اکتاہٹ پیدا ہونی چاہیے۔چنانچہ شارح صحیح مسلم علامہ نوووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں'' کاتب کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ وتسلیم لکھنے کی پابندی کرے اور بار بار لکھنے میں کوئی اکتاہٹ محسوس نہ کرےجوشخص اس سے غفلت کرتا ہے و ہ گویا خیر کثیر سے محروم ہوگیا ،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ عزوجل جیسے الفاظ لکھے ،نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگراخیار امت کےلئے رضی اللہ عنہم جیسے الفاظ کا انتخاب کرے۔اس سلسلے میں رموزواشارات سے کام نہ لے بلکہ انہیں کامل طور پر لکھا جائے ۔''(شرح تقریب النووی :ص 291)
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ عزیز وجلیل ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عزوجل کے الفاظ نہ لکھے جائیں ،اسی طرح صلاۃ وسلام کے الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے استعمال نہ کیے جائیں جیسا کہ امام نووی نے شرح مسلم میں وضاحت کی ہے۔''(تدریب الراوی :ص 293)
علامہ محمد جمال الدین قاسمی نے اپنی تالیف''قواعد التحدیث'' میں باقاعدہ آداب کا عنوان قائم کرکے بڑی تفصیل سے اس مسئلے کا حق اداکیا ہے۔(قواعد التحدیث :ص 237)
لہذا ہمیں اس سلسلہ میں سستی یا کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ ثواب وآداب کی نیت سے اللہ تعالیٰ عزوجل، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذکر خیر پرمذکورہ بالا آداب لکھنے کی پابندی کرنی چاہیے۔
سوال۔ایک طالب علم کسی کورس میں داخلہ لینے کےلئے خود کو احمدی ظاہر کرتاہے۔جبکہ وہ مسلمان ہے کیاکتاب وسنت کی رو سے ایسا کرنا جائز ہے۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ اس قسم کا مشورہ دینے کے متعلق شریعت اسلامیہ کا کیا فیصلہ ہے۔سائل۔عبدالغفارمیاں والی۔
جواب۔ شریعت اسلامیہ میں انسان کے ایمان لانے کے بعد اس کی کامیابی کا مدار اس بات کو قرار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا وفادار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اطاعت گزار ہو اس قسم کی وفاداری اور اطاعت گزاری کو قرآن کریم کی اصطلاح میں''استقامت''سے تعبیر کیا گیا ہے۔اگر انسان ایمان لانے کے بعد کڑی آزمائش کے وقت اپنے مفادات کو دین کے مطالبات پر ترجیح دیتا ہے تو یہ ایک ایسا دوغلہ پن ہے جس کے باعث اس کے اقرار ایمان اور دیگر عبادات کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
ایمان کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ مومن کو باطل کی بڑی سے بڑی قوت اپنی جگہ سے ہلا نہ سکے اور اس راستے میں پیش آنے والی ہر آزمائش کے سامنے کوہ استقامت بن جائے۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں:
''یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے پھر اس پر جم گئے ان کے لئے کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔''(46/الاحقاف:13)
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے کسی اتفاقی حادثہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو اپنا رب نہیں کہا اور نہ ہی اس غلطی کا ارتکاب کیا ہے کہ اللہ کو اپنا رب کہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اپنا رب بناتے جائیں بلکہ یہ عقیدہ قبول کرلینے کے بعد ساری عمر ا س پر قائم رہے اور اپنی زندگی میں اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔