کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 62
(ب)بازاری عورتوں اور رقاصاؤں سے تعلق رکھیں گے۔
(ج) سود خوری اور ریشم پوشی کو وطیرہ زندگی بنائیں گے۔
(د) آلات موسیقی کوبکثرت استعمال کریں گے۔(مسند امام احمد :5/329)
آج یہ جرائم بکثرت پائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں بنی اسرائیل جیسی ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھے۔آمین
2۔صورت مسئولہ میں جس طرح چیونٹیوں کو مارنے کا ذکر ہوا ہے شرعا ایسا کرنا جائز نہیں۔اگرچہ موذی چیز کو مارنے کی شرعاً اجازت ہے ۔بالخصوص چیونٹیوں کے متعلق حدیث میں ایک واقعہ بھی بیان ہوا کہ کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ ڈالا تو انہوں نے بل کی تمام چیونٹیوں کو آگ لگادی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پرایسی وحی بھیجی کہ تو نے صرف اس چیونٹی کو سزا کیوں نہ دی،جس نے تجھے کاٹا تھا۔(صحیح بخاری :کتاب الجہاد)
ممکن ہے کہ اس واقعہ سے چیونٹیوں کو آگ سے جلا دینے کا جواز کشید کیا جائے لیکن واضح رہے کہ گزشتہ امتوں کے واقعات ہمارے لئے اس وقت قابل حجت ہوتے ہیں جب کسی مسئلہ کے متعلق ہماری شریعت میں حکم امتناعی نہ آیا ہو، ہماری شریعت میں چیونٹی کو مارنا بالخصوص آگ میں جلانا دونوں بصراحت منع ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چارجانداروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا:''چیونٹی ،شہد کی مکھی،ہدہد اور چڑیا۔''(سنن ابی داود ،کتاب لادب)
کیونکہ مذکورہ جاندار ایک ایذا رسانی کا باعث نہیں بنتے اگر کسی موقع پر ان کے ضرر کا اندیشہ ہو تو انہیں دھوپ میں پھینک کر بھسم کرنے کی بجائے انھیں بھگا دینا ہی کافی ہے۔پھر دھوپ میں ڈال کرختم کرنے اورآگ کے ذریعے جلادینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔چیونٹیوں کو آگ سے جلادینا بھی منع ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ سے گزرتے ہوئے چیونٹیوں کو دیکھا جنھیں آگ سے جلادیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:''کہ انھیں کس نے جلایا ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم نے ایسا کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مناسب نہیں کہ آگ کے پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی کسی جاندار کو آگ سے جلائے۔''(سنن ابی داود کتاب الادب)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم کھانے وغیرہ کو اچھی طرح محفوظ کریں اگر چیونٹیاں چڑھ جائیں تو انھیں جھاڑ دینا ہی کافی ہے ،دھوپ میں ڈال کر انہیں ختم کرنا درست نہیں ۔(واللہ اعلم)
سوال۔بعض کتب دینیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم یا صلعم لکھا ہوتا ہے۔اسی طرح کسی صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کی علامت لکھی ہوتی ہے۔ اس قسم کی علامت اور اختصارکی کیا حیثیت ہے۔(حافظ محمد یونس ربانی، فیصل آباد خریداری نمبر 2924)
جواب۔اسلامی آداب میں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ محبت اور چاہت سے '' صلی اللہ علیہ وسلم ''لکھا جائے ،اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے شریفہ کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تحریر کیاجائے، دیگر انبیاء کرام کے ساتھ علیہم السلام اور متقدمین اسلاف کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ، زندہ اہل علم کے ساتھ اور برخورداران کے ساتھ سلمہ اللہ لکھاجائے۔ محدثین عظام نے وضاحت کی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم