کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 6
حرف اول
اللہ تعالیٰ کا بے پایاں احسان ہے کہ اس نے ہمیں خوب صورت انسان بنانے کے بعد خوب سیرت بننے کےلئے ایک ایسا ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے۔جس کی رات بھی دن کی طرح تابدار اور روشن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمہارے پاس ایسی ملت بیضا لے کرآیا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح چمک دار ہے۔ اس سے وہی شخص دور رہے گا جس نے خود تباہ وبرباد ہونے کا ارادہ کرلیا ہو۔‘‘(مسند احمد :ج 4 ص 126)اسی طرح زندگی کا دوسرا نام ''اسلام ہے'' جو اللہ کےہاں تمام ادیان سے پسندیدہ اور قابل اعتبار ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہے۔''(3 /آل عمران :19)
اس عالم رنگ وبو میں یہودیت،نصرانیت، دہریت، بدھ مت، ہندو دھرم، کمیونزم، سوشلزم اور جمہوریت وغیرہ بطوردین نافذ ہیں اور متعدد لوگ ان پر عمل پیرا ہیں لیکن اللہ کے ہاں قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے۔اسلام کا معنی خود سپردگی ہے۔اس سے مراد اللہ کے احکام وارشادات کے سامنے سر تسلیم خم کردینا اور اس کے حضور برضا ورغبت مطیع ومنقاد بن جانا ہے۔ دنیا کے متعدد ادیان میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا ضامن ہے، اسے مختصر طور پر عبادت اور طریقہ عبادت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس دو لفظی تعریف کی وضاحت اس طرح ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور طریقہ عبادت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرمشتمل ہے۔عبادت صرف چند ایک مراسم عبودیت کو بجا لانے کا نام نہیں بلکہ بندہ مسلم کا ہر وہ کام جس کی بجاآوری سے اللہ رب العزت خوش ہو، عبادت کہلاتا ہے۔اور یہ عبادت عقائد نظریات اور اعمال واخلاق پر مشتمل ہے،اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے وسائل معلوم کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہےجو ہمارے اور اللہ کے درمیان ایک مستند نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کن کن کاموں کی بجاآوری سے خوش ہوتے ہیں۔ اور وہ کون سے کام ہیں جن کے ارتکاب سے وہ ناراض ہوتے ہیں۔بندوں کو اس کی اطلاع دینے کےلئے اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ شروع فرمایا جو قرآن اور بیان قرآن پر مشتمل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کی وحی سے مطلع کرنے کے لئے کئی طریقے استعمال فرمائے ان میں سے کامیاب اور کارگر ذریعہ سوال وجواب کا ہے۔ بعض اوقات خود وحی بھی سوال وجواب کی صورت اختیار کرلیتی تھی۔ جیسا کہ حدیث جبرائیل سے معلوم ہوتا ہے۔اس میں فرشتہ وحی خود کسی دینی معاملے کے متعلق سوال کرتا ہے،پھر خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات کی تصدیق کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ صورت حال دیکھ کرتعجب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمھیں دین کی باتیں سکھانے کے لئے یہ انداز اختیار کئے ہوئے تھے۔''(صحیح بخاری: الایمان، 50)