کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 59
بلاشبہ دعوت دین شریعت اسلام کا اہم فریضہ ہےجس کے کچھ اصول وضوابط ہیں اور آداب شرائط ہیں ۔سب سے بڑا ضابطہ یہ ہے کہ داعی صاحب علم ہو اور دعوت بھی علی وجہ البصیرت دی جائے،نیز دعوت دیتے وقت ایسا پر حکمت انداز اختیار کیا جائے جو دین اسلام کے شایان وشان ہو کہ دعوت دیتے وقت اسلام کا کوئی دوسرا ضابطہ مجروح نہ ہو، صورت مسئولہ میں زید کا ماموں دو چار سال بعد چند دنوں کے لئے اس کی والدہ سے ملنے آتا ہے تو زید ان کی ضیافت کرتا ہے۔ جب لوگوں کی طرف سے اعتراض ہوتے ہیں تو مہمان نوازی کو دعوت دین کا نام دے دیتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ ایک چور دروازہ تلاش کیا گیا ہے جس کی آڑ میں رشتہ داری کو مستحکم کیا جاتا ہے۔جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اس کے بالکل برعکس تھا ۔انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکار لوگوں سے کوئی رواداری نہیں کی، دعوت دین کا سلسلہ تو ہروقت رہنا جاری رہنا چاہیے نہ کہ دو چار سال بعد چند دنوں کے لئے جبکہ مرتدین (مرزائی) مہمان بن کر زید کے گھر اتر آ ئیں۔یہ تمام چیزیں ایک مسلمان کی دینی غیرت کے خلاف ہیں۔ان پر اتمام حجت ہوچکی ہےاور دعوت دین بھی انھیں مل چکی ہے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ انھیں احساس دلایا جائے کہ ہمارے ارتداد کی وجہ سے ہمارے رشتہ دار ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ہم سے دور رہتے ہیں جب کہ زید کے کردار میں یہ چیزیں تلاش کے باوجود نہیں ملتیں، ان کے لئے اپنے گھر میں مہمان نوازی کی خاطر علیحدہ برتنوں کے اہتمام سے بھی ایمانی غیرت کا احیاء نہیں ہوگا کیونکہ انہیں ضیافت کے ذریعے پورا پورا احترام مل گیا ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے اعلان بیزاری کردیا جائے اور کھلانے پلانے کے تمام چور دروازوں کو بند کردیا جائے ،انہوں نے خود مسلمانوں کے ہاں اپنے احترام کو ختم کرلیا ہے تو ہمیں اس قدرتکلفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، واضح رہے کہ ضیافت کا تعلق موالات سے ہے جس کی شریعت میں کفار سے اجازت نہیں ہے۔ دعوت دین کی خاطر مرزائیوں سے میل جول رکھنا اس کا جواب بھی سابقہ سطور میں دیا جاچکا ہے کہ اگر اس سے مراد گھر میں بلا کر مہمان نوازی کرنا ہے اور ان کی خوشی غمی میں شریک ہوناہے تو ایسا کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں، ایسے میل جول کے بغیر بھی دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتاہے، مرزا قادیانی کے دجل وفریب کو واضح کیا جائے کہ وہ انگریز کا کاشت کردہ پودا تھا اور اس نے دعویٰ نبوت کرکے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے، اس طرح ان پر مرزائیت کی حقیقت بے نقاب کی جائے اور یہ دعوت دین خط وکتابت کے ذریعے سر انجام دی جاسکتی ہے۔ بہرحال دعوت دین موسمی نہیں بلکہ ہر وقت جاری رہنی چاہیے لیکن اس کی آڑ میں تعلقات کی استواری جائز نہیں ہے۔ مرزائیوں کے گھر کا کھانا ان کے ذبیحہ وغیرہ نبوت کے مدعیان نے ایک ایسا جرم کیا ہے جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان سے بچنے اور دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے، اس بنا پر مرزائیوں سے رشتہ ناطہ کرنا، ان کے گھر سے کھانا پینا اور ان کا ذبیحہ استعمال کرنا سب ناجائز اور حرام ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:'' کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو مشتبہ چیزوں کی پیروی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے دور رہو۔‘‘(صحیح بخاری) اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کاتقاضا یہ ہے کہ مرزائیوں سے کسی قسم کا میل ملاپ نہ رکھا جائے اور نہ ہی ان کےگھر سے کھانا کھایا