کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 57
ایک سجدہ ان کے نزدیک دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو گا اگر چا ہو تو قرآن کی آیات پڑھ لو ’’تمام اہل کتا ب ابن مر یم کی مو ت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لا ئیں گے۔‘‘ (صحیح بخا ر ی :الا نبیا ء 3448)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث کو بیا ن کر نے وا لے تقریباً پندرہ تا بعین ہیں ، پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علا وہ حضرت جا بر بن عبد اللہ ، حضرت نوا س بن سمعا ن ، حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص ، حضرت حذیفہ بن اسید ، حضرت عا ئشہ صدیقہ حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت مجمع بن حارثہ ، حضرت عبداللہ بن مغفل ، حضرت وا ثلہ بن اسقع ، حضرت ابو امامہ ، حضرت عثما ن ، ابن ابی العا ص اور حضرت ثو با ن رضی اللہ عنہم سے بھی یہ حدیث نزو ل عیسیٰ علیہ السلام مرو ی ہے، اختصا ر کے پیش نظر ان کے حو الہ جا ت ذکر نہیں کئے گئے ۔
سوال۔چیچہ وطنی سے محمد صادق لکھتے ہیں کہ زید نامی ایک شخص کے قادیانی ماموں جرمنی میں رہتے ہیں۔اور دو چار سال بعد چند ماہ کےلئے پاکستان زید کی والدہ اور اس کے خاندان سے ملنے آتے ہیں ۔زید اور اس کا خاندان ان کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتا ہے۔نیز زید اپنی والدہ کے ہمراہ جب ربوہ میں ان سے ملنے جاتے ہیں تو ان کے گھر سے کھانا وغیرہ کھاتے ہیں۔تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔اور غمی خوشی میں بھی ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں۔ جب کوئی اعتراض کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف دعوت دین کےلئے ان سے میل جول رکھتے ہیں، اس صورت حال کے پیش نظر مندرجہ ذیل سوالات کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں درکا ر ہے۔
1۔مرزائیوں کےلیے دعوت طعام کا اہتمام کرنا اور ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز ہے۔جبکہ مقصوددعوت دین ہو ،اگر گھر میں ان کے لئے علیحدہ برتنوں کا انتظام کردیا جائےتو شرعا کیسا ہے؟
2۔دعوت دین کےلئے ان سے میل جول رکھنا شرعا ً کیسا ہے؟
3۔مرزائیوں سے تحفے تحائف کا تبادلہ ان کے گھر سے کھانا اور ان کا ذبیحہ جائز ہے؟
4۔مرزائیوں سے تعلق رکھنے والے کی دعوت یا دعوت طعام میں شرکت کی جاسکتی ہے؟
5۔مرزائیوں کی غمی خوشی میں شریک ہونا جائز ہے؟
6۔اگر زید اپنے ماموں مرزائی سے قطع تعلقی کرتا ہے تو اس کی والدہ ناراض ہوجاتی ہے ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب۔سوالوں کے ترتیب وار جوابات سے قبل کچھ تمہیدی گزارشات پیش خدمت کرتے ہیں تاکہ جوابات سمجھنے میں آسانی ہو۔
واضح رہے کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔''(33/الاحزاب :40)
اس آیت کا سیاق وسباق قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ختم کردینے والے ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس معنی کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے بھی ہوتی ہے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:''پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔''(صحیح مسلم)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔''(صحیح بخاری)