کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 53
اللہ تعا لیٰ ہمیں نفا ق سے محفو ظ رکھے۔
مضمو ن نگا ر کا مطا لبہ تھا کہ ان احادیث کو مستند اور مسلم حو الہ جا ت سے مو ضو ع ثا بت کر یں سو ہم نے ان کا مطا لبہ پو را کردیا ہے ان کے علا وہ اور بھی احادیث ہیں جو پیش کی جا تی ہیں اگر ضرورت محسو س ہو ئی تو ان کے متعلق قلم اٹھا یا جا ئے گا ۔(واللہ اعلم )
سوال ۔ شا ہدرہ سے غلا م اللہ پو چھتے ہیں کہ اگر کو ئی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط با ت منسو ب کر ے اس کے متعلق کیا وعید ہے ۔
جوا ب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی با ت منسو ب کر نا جو آپ نے نہ کہی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی غلط با ت کی نسبت کر نا بہت بڑا جر م ہے ۔فر ما ن نبوی ہے کہ :’’جو انسا ن مجھ پر دانستہ جھو ٹ با ند ھتا ہے اس نے اپنا ٹھکا نہ جہنم میں بنا لیا ہے َ۔‘‘
(صحیح بخا ری کتا ب العلم )
اس حدیث کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حو الے سے اپنی بات کہنا یا آپ کی طرف غلط با ت منسوب کر نا حرا م اور نا جا ئز ہے ۔
سوال ۔ میلسی سے غلا م محمد لکھتے ہیں کہ عام طو ر پر خطباء حضرا ت بیا ن کرتے ہیں کہ بیت اللہ کے اند ر 360 بت نسب تھے یہ کہا ں تک درست ہے ؟کیا ان میں کسی نبی کا بھی بت تھا جس کی پو جا کی جا تی۔ کیو نکہ مشہو ر ہے کہ جو لو گ بتو ں کو وسیلہ بنا تے تھے وہ درا صل اس وقت کے صلحا کے فو ت ہو نے پر ان کے بت بنالیتے تھے ۔نبی سے بڑھ کر زیا دہ صا لح کو ن ہو سکتا ہے ؟
جوا ب ۔بیت اللہ کے اند ر 360بتوں کا روا یا ت میں ضرو رآیا ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب مسجد حرا م میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بیت اللہ کے ارد گر د 360 بت نصب تھے، آپ کے ہاتھ میں کما ن تھی آپ اس سے ان بتو ں کو ٹھوکر ما ر تے اور کہتے جا تے :" حق آگیا اور با طل چلا گیا، یقیناً با طل جا نے وا لی چیز ہے ۔‘‘(17/بنی اسرا یل :81)
"حق آچکا اور معبود با طل نہ تو پہلی با ر پیدا کر سکتا ہے اور نہ ہی دو با ر ہ پیدا کر ے گا ۔(34/سبا : 39)
آ پ کی ٹھو کر سے بت چہر ے کے بل گر تے جا تے ۔( صحیح بخا ری : کتا ب التفسیر 4720)
بیت اللہ کے اند ر کچھ مجسمے اور تصویر یں ضرو ر تھیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسما عیل علیہ السلام کی تصو یر بھی تھی اور ان کے ہا تھ میں فال گیر ی کے تیر تھے، آپ نے یہ منظر دیکھ کر فر ما یا : کہ اللہ مشر کین کو بر با د کر ے انہیں خو ب علم ہے کہ ان دو نو ں پیغمبروں نے کبھی فا ل کے تیر استعما ل نہیں کئے ۔(صحیح بخا ری : کتا ب المغا زی 4288)
رو ایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ وہا ں حضرت مر یم علیہاالسلام کی تصویر یں بھی تھیں جنہو ں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گو د میں اٹھا رکھا تھا ۔کسی نبی کا مجسمہ بنا کر بیت اللہ کے اندر رکھا گیا ہو پھر اس کی عبا دت کی جا تی ہو اس کا تذکرہ کسی صحیح روا یت میں نہیں ملتا جو قا بل اعتما د ہو البتہ لا ت منا ت اور عزی کے متعلق وضاحت ہے کہ یہ صلحا اور نیک لو گ تھے اور ان کے مر نے کے بعد لو گو ں نے ان کے مجسمے بنا لئے اور ان کی پر ستش شروع کر دی ، اس طرح جز یرہ عر ب میں شر ک کا آغا ز ہو ا ،اگر چہ حضرات انبیا ء علیہ السلام لو گو ں میں سب سے بڑ ھ کر نیک اور اللہ تعا لیٰ کے اطاعت گزا ر ہیں لیکن صلحا سے مرا د ان کے علا و ہ نیک سیر ت اور پاکباز لو گ ہیں ،اگر چہ عیسا ئیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مجسمے بنا کر ان کی عبا دت شروع کر دی تھی تا ہم بیت اللہ کے اندر کسی نبی کا بت مو جو د نہ