کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 50
کے باوجو د یہ محض جھو ٹ ہے ۔ (احا دیث القصاص : ص 78) علا مہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مذکو رہ رو ایت کو امام تر مذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسماعیل بن مو سیٰ سے، انہو ں نے محمد بن عمر سے ، انہو ں نے شر یک سے بیان کی ہے، مجھے معلو م نہیں ان میں سے کس نے اسے وضع کیا ہے ۔(میزا ن الاعتدال : ج 3/ص 698) علا مہ شو کا نی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس رو ایت کو مو ضو عا ت میں شما ر کیا ہے ۔ (الفوائد المجموعہ فی الاحادیث المو ضو عہ : ص 648) اگر چہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کثر ت طر ق کی وجہ سے حسن کہا ہے لیکن ان کا فیصلہ محل نظر ہے کیو نکہ کثر ت طر ق سے روایت میں پایا جا نے وا لا معمو لی سقم تو دو ر ہو سکتا ہے لیکن بنیا د ی کمزوری اس سے رفع نہیں ہو تی، چنا نچہ محد ث ابن الصلا ح لکھتے ہیں : " کثر ت طرق سے ضعف رفع نہیں ہو تا وہ یہ ہے کہ اس روایت میں کوئی را وی متہم با لکذ ب ہو ۔( مقد مہ ابن الصلا ح : ص 31 ) اس روا یت کی سند میں صر ف تہمت زدہ راو ی نہیں بلکہ کذا ب اور جھوٹے راو ی مو جو د ہیں، محدث العصر علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور اس کے تما م طر ق پر بحث کر کے اس کا خود ساختہ ہو نا وا ضح کیا ہے ۔( ضعیف الجا مع الصغیر : 1416) اس روا یت کے مقا بلہ میں ایک صحیح روا یت ملا حظہ ہو جس کا تر جمہ پیش خد مت ہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیا ن کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر ماتے ہو ئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " کہ خوا ب میں میرے پا س دودھ کا پیا لہ لا یا گیا ، میں نے اس میں سے کچھ دودھ نوش کیا حتیٰ کہ اس کی سیرا بی میر ے نا خنو ں سے ٹپکنے لگی، میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ " صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : اس کی تعبیر علم ہے ۔ (صحیح بخا ر ی : کتا ب تعبیر الر ؤ یا 7006) ایسا معلو م ہو تا ہے کہ اس رو ایت کو نیچا دکھا نے کے لئے مذکو رۃ الصدر روایت کو وضع کیا گیا ہے عر صہ ہوا کہ راقم نے اس روا یت کی استنادی حیثیت ہفت روزہ اہلحدیث( 31/مارچ1989ء) میں واضح کی تھی، اس کا دفا ع سید شبیر حسین بخا ری نے پندر ہ روزہ ’’ذوا لفقا ر‘‘ پشا ور میں کیا ۔ ان کے مبلغ علم سے قا ر ئین اس دفا ع کا اندا زہ لگا سکتے ہیں ، بخاری صا حب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوا لہ سے لکھا ہے کہ تمام قر آن حکیم کا لب لباب بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ کا اس کی ب میں اور ب کا اس کے نقطہ میں جو اس کے نیچے ہے اور وہ نقطہ میں ہو ں " پند رہ روزہ ذو الفقا ر مجر یہ 16/ اپریل 1989ءمعتقد مین اور متو سلین کو خو ش کر نے کے لئے تو اس طرح کی بے کا روایات سہارا بن جا تی ہیں لیکن علمی دنیا میں اس طرح کی روا یا ت کا کو ئی مقا م نہیں ہے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ہفت روزہ اہل حدیث مجر یہ ( 2/فروری2001ء)میں مو لا نا محمد اعظم آف گو جرا نو ا لہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت سے متعلقہ دوا حا دیث کی استنا دی حیثیت کے متعلق بایں الفا ظ تبصرہ فر ما یا ہے کہ : ’’اس قسم کی احا دیث مو ضو ع ہیں نیز حدیث کی کسی معتبر کتا ب میں مذکو ر نہیں اور نہ ہی ائمہ اربعہ سے منقول ہیں ، امام بزا را ورامام دار قطنی نے ضعیف سندو ں سے ذکر کیا ہے اور سا تھ ہی وضاحت کر دی ہے کہ یہ احا دیث ضعیف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت نہیں ۔‘‘ اس کے متعلق ہما رے ایک مہر با ن جنا ب محمد رفیق قادر ی نے تنقید ی مضمو ن سپرد قلم کیا ہے جو آپ کو ارسا ل کر رہا ہوں