کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 49
کے دن اللہ کے ہا ں رحمت و قر ب کا ذریعہ ہوں گے، البتہ جب دشمنان اسلام کی مکا را نہ سا ز شیں حد سے بڑھ گئیں تو مجموعی طور پر اور پھر نا م لے لے کر بد دعا فر ما ئی جیسا کہ ایک مر تبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :’’ کہ اے اللہ ! میں قر یش کا معاملہ تیر ے حوالے کرتا ہو ں پھر آپ نے بڑ ے بڑے سر غنو ں کے نا م لے کر بد دعا فر ما ئی ۔‘‘ (صحیح بخا ری ) اسی طرح بعض افعا ل کے ار تکا ب پر بھی مر تکب کو با عث لعنت قرار دیا ،مثلاً وا لد ین کی نا فر ما نی، شرا ب نو شی اور سو د خوری یا جھو ٹی قسم اٹھا کر کسی کا ما ل نا جا ئز طو ر پر ہتھیا نے وا لے کے متعلق فر ما یا : ’’ کہ اللہ تعالیٰ اس کے ما ل میں بر کت نہ کر ے ۔ ‘‘ سوا ل ۔ملتا ن سے احتشا م الحق بذر یعہ ای میل سوا ل کر تے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ریڈ یو ٹی وی پر یہ حدیث بیا ن کی جا تی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے ‘‘ کیا یہ حدیث صحیح ہے اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے ۔ جوا ب ۔ ہما ر ے ہا ں بیشتر احادیث زبان زد خا ص و عا م ہیں لیکن اس کی استنا دی حیثیت انتہا ئی مخد و ش ہوتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے، اس روا یت کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تا لیف مستدر ک میں بیا ن کیا ہے ۔(ج 3/ص 126) یہ حد یث بیا ن کر نے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے اور ابو الصلت نا می راوی ثقہ اور با عث اطمینان ہے لیکن امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے حا کم کے بیا ن پر با یں الفا ظ تبصرہ کیا ہے:’’ بلکہ یہ رو ایت مو ضو ع اور خو د سا ختہ ہے اور ابو الصلت راوی نہ ثقہ ہے اور نہ با عث اطمینا ن ۔‘‘ (تلخیص المستدرک : ج 3/ص126) اس روایت کےمتعلق ایک دوسر ے مقام پر لکھتے ہیں کہ امام حا کم کا اس طرح کی با طل روایات کوصحیح قرا ر دینا انتہا ئی تعجب انگیز ہے اور اس کا ایک راو ی احمد تو دجا ل اور درو غ گو ہے، اس کے با ر ے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ محدثین کے نز دیک یہ روا یت ضعیف بلکہ مو ضو ع ہے۔(احا دیث القصاص :ص،78) خطیب بغدادی امام یحییٰ بن معین کے حوا لہ سے اس حد یث کے متعلق لکھتے ہیں کہ روایت جھو ٹ کا پلند ہ اور اس کی کو ئی بنیا د نہیں ہے ۔ یہ روا یت مختلف الفا ظ سے مر وی ہے اور اس کے تمام طر ق بے کا ر ہیں امام جو ز ی نے اس رو ایت کے تمام طر ق پر بڑی سیر حا صل بحث کی ہے جو تقر یباً چھ صفحا ت پر پھیلی ہو ئی ہے انہو ں نے عقلی اور نقلی لحا ظ سے اسے بے بنیا د قرا ر دیا ہے، فر ما تے ہیں یہ حد یث کسی بھی طر یق سے صحیح ثا بت نہیں ہے ۔ (موضوعات : ج 1ص353) اس روا یت کے دوسر ے الفا ظ حسب ذیل ہیں :’’ میں دا نا ئی کا گھر ہو ں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘ (ترمذی : کتا ب المنا قب ) امام ترمذ ی اس رو ایت کو بیا ن کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں غرا بت اور نکا رت ہے ۔حا فظ سخا وی، امام دارقطنی کے حوا لہ سے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مضطر ب ہو نے کے سا تھ سا تھ بے بنیا د بھی ہے ۔ (المقا صد الحسنہ :ص 97) اس روا یت کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام ترمذی اور دیگر حضرات نے اسے بیان کیا ہے، ان کے بیا ن کر نے