کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 48
ا پنے پڑو سیوں سے حسن سلو ک کا مظا ہر ہ کر ے ۔ (الاحا دیث الصحیحہ:نمبر 6/998)
مختصر یہ ہے کہ ہما ر ے نز دیک رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جا ئے اور آپ کی صورت و سیر ت کی اتباع کی جا ئے، اس دنیا و آخرت کی خیر و بر کا ت سے ہم مشرف ہو ں گے جیسا کہ حا فظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
" اہل مدینہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بر کت کی وجہ سے دنیا و آخرت کی سعادت سے بہر ہ ور کیا گیا بلکہ ہر مؤمن جسے اس بر کت کی بدو لت ایمان نصیب ہوا ،اسے اللہ کے ہا ں اتنی بھلائیو ں سے نوازا جائے گا جس کی قدر و قیمت کو وہی جا نتا ہے ۔ (مجمو عہ فتا وی ٰ ابن تیمیہ 11: 113)
سوال ۔ قرآن و حدیث کی رو شنی میں وضا حت فر ما ئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بد دعا دی ہے یا نہیں ۔ (عبد الر شید ملتا ن )
جو اب ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعا لیٰ نے کر یما نہ اخلا ق سے نوا زا تھا کہ آپ کسی کے حق میں بد دعا یا لعنت نہ فر ما تے تھے، بلکہ ایک دفعہ آپ سے کہا گیا کہ مشر کین پر بد دعا فر ما ئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اب دیا : "کہ میں لعنت کے لئے مبعو ث نہیں ہوا ہو ں بلکہ مجھے با عث رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم، کتا ب البر )
اسی طرح آپ کو ایک مر تبہ قبیلہ دوس پر بد دعا کے لئے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے راہ راست پر آنے کی دعا فر ما ئی جس کے نتیجے میں وہ مسلما ن ہو گئے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البر وا لصلۃ)
البتہ بعض اوقا ت عر ب کی عادت کے پیش نظر اظہا ر تعجب یا افرا د کے لئے کچھ الفا ظ زبا ن پر جا ر ی ہو جاتے ہیں، مثلاً اس کی نا ک خا ک آلود ہو ، تیر ی ما ں تجھے گم پا ئے ، تیرا دا یا ں ہا تھ خا ک میں مل جا ئے وغیرہ، بعض اوقا ت ایک اور اندا ز میں اس طرح کے کلمات استعما ل فرما تے ہیں، مثلا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ میری والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پا س ایک بچی رہا کرتی تھی ،ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فر ما یا :" اب تو بڑ ی ہو گئی ہے تیر ی عمر دراز نہ ہو۔ " یہ الفاظ سن کر بچی رو تی ہوئی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پا س آئی ، ماجر ا بیا ن کیا ،حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فر ما یا : کہ میں نے اللہ تعا لیٰ سے با ت سنوائی ہے کہ اگر میں کسی ایسے مسلما ن کو بد دعا دوں جو اس کا اہل نہ ہو تو قیا مت کے دن اس بددعا کو اس کے لئے رحمت و قر ب کا ذر یعہ بنا دے ۔(صحیح مسلم: کتا ب البر والصلۃ)
حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بھی اس باب کے تحت بیا ن کیا ہے، ایک مر تبہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر لائے ، حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے آکر جوا ب دیا کہ وہ کھا نا کھا رہے ہیں، آپ نے دو بارہ بھیجا ، انہو ں نے پھر وہی جوا ب دیا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوا ب دیا کہ اللہ کرے اس کا پیٹ نہ بھر ے ۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ )
محدثین کرا م نے اس حدیث کو مناقب معاو یہ رضی اللہ عنہ میں بیان کیا ہے کیو نکہ حضرت معاو یہ رضی اللہ عنہ تو اس بد دعا کے اہل نہ تھے کیو نکہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما انہیں کچھ کہنے کی بجا ئے دیکھ کر وا پس آگئے تھے، بنا بر یں یہ کلما ت آپ کے لئے دعا ہیں جو قیا مت