کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 47
ہو نے کی تصد یق کی جا سکتی ہے، پھر اس فتو یٰ کی بھی کوئی شرعی حیثیت نہیں بلکہ لو گو ں کو بے عمل بنا نے کے لئے ایک مؤثر تحر یک ہے، شر یعت مطہرہ میں صرف دو قسم کی آنکھیں ہیں جن پر جہنم کی آگ حرا م ہے۔ (1)وہ آنکھ جس نے اللہ کی راہ میں پہرہ دیا ہو ۔ (2) وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے اشکبا ر ہو ئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثا ر شر یفہ اگر صحیح ہو ں تو ان سے دو شر ا ئط کے ساتھ تبرک لیا جا سکتا ہے : (1)تبرک لینے وا لا شر عی عقیدہ اور اچھے کردار کا حا مل ہو جو شخص سچا مسلما ن نہیں اسے اللہ تعا لیٰ اس قسم کے تبر کا ت کا کو ئی فا ئدہ نہیں پہنچا ئیں گے ۔ (2)جو شخص تبر ک حا صل کر نا چا ہتا ہو اسے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثا ر شر یفہ میں سے کو ئی شے حا صل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے، محض دیکھ لینے سے کو ئی فا ئدہ نہیں ملے گا، ہم مذکو رہ حقائق کی روشنی میں علی وجہ البصیر ت کہتے ہیں کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں با لو ں اور اسی طرح کی دیگر اشیاء میں سے کچھ بھی با قی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہے کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر یہ ثا بت کر سکے کہ فلا ں چیز وا قعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ جب صورت حا ل یہ ہے تو پھر ان موئے مبا رک کے سا تھ عملی طور پر تبر ک تو ہما رے اس دور میں ممکن نہیں۔ آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کر نا ضر وری خیا ل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم نے اگر چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثا ر شر یفہ سے تبر ک حا صل کیا اور آپ کے لعا ب دھن کو اپنے چہرو ں اور جسمو ں پر ملا اور آپ نے انہیں منع نہیں فرما یا ،ایسا کرنا جنگی حا لا ت کے پیش نظر انتہا ئی ضرو ری تھا مقصد یہ تھا کہ کفا ر قر یش کو ڈرا یا جا ئے اور ان کے سا منے اس با ت کا اظہا ر کیا جائے کہ مسلما نو ں کا اپنے راہبر اور راہنما سے تعلق کس قدر مضبو ط ہے، انہیں اپنے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر وا لہا نہ عقیدت و محبت ہے، وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس اندا ز سے آپ کی تعظیم بجا لا تے ہیں لیکن اس کے با وجو د اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے چھپا یا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑ ے حکیما نہ انداز میں اور لطیف اسلو ب کے سا تھ مسلما نو ں کی تو جہ اعما ل صا لحہ کی طرف مبذول کر نے کی کوشش فرما ئی جو اس قسم کے تبر کا ت کو اختیا ر کر نے سے کہیں بہتر ہیں۔ مند ر جہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہما ر ی مکمل را ہنمائی کر تی ہے : "حضرت عبد الر حمن بن ابوقراد رحمۃ اللہ علیہ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو فر ما یا ، آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے آپ کے وضو کے پا نی کو اپنے جسموں پر ملنا شر وع کر دیا ، آپ نے در یا فت فر ما یا :کہ تم ایسا کیو ں کرتے ہو ؟ صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے عر ض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے پیش نظر ایسا کر تے ہیں۔ آپ نے فر ما یا : جسے یہ با ت پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کر ے یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کر ے تو اسے چا ہیے کہ با ت کر تے ہو ئے سچ بو لے، اس کے پا س امانت رکھی جا ئے تو اسے ادا کر ے اور