کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 43
بلکہ عرو ہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیا ن اس سے بھی زیا دہ حیرا ن کن ہے کیو نکہ آپ ابھی مسلما ن نہیں ہوئے تھے۔ وہ آپ کے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کو با یں الفاظ بیا ن کر تے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کر تے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم زمین پر گر نے وا لے پا نی کو لینے کے لئے دو ڑ پڑ تے ہیں جب آپ لعا ب دھن تھو کتے تو جلدی سے ہا تھوں اور چہر ے پر مل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا مو ئے مبا ر ک گر تا ہے تو اسے ہا تھو ں ہاتھ لیتے ہیں ۔‘‘ (مسند احمد: 4/324)
یہ عجیب اتفا ق ہے کہ آپ کے مو ئے مبا رک سے اس قدر محبت و عقیدت کے باوجو د کتب حدیث میں صرف دو ایسی خوا تین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے خا ص طو ر پر آپ کے مو ئے مبا ر ک کو محفو ظ رکھنے کا اہتمام فر ما یا، ایک ام المو منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دوسری حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ :" صحیح بخا ری میں حضرت عبد اللہ بن مو ہب رضی اللہ عنہ کا بیا ن بایں الفا ظ نقل ہوا ہے کہ مجھے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مر تبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبا رک دکھا ئے تھے ۔(حدیث نمبر : 5898)
اس کی مز ید تفصیل صحیح بخا ری میں نقل ہوئی ہے کہ مجھے ( عبد اللہ بن مو ہب ) میر ے گھر وا لو ں نے پا نی کا ایک پیا لہ دے کر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پا س بھیجا کیو نکہ ان کے پا س ایک خو بصورت چاند ی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مو ئے مبا رک محفو ظ تھے، آپ پا نی میں انہیں ڈا ل کر ہلاتیں پھر وہ پا نی نظر بد یا بخا ر والے مر یض کو پلا یا جا تا ،میں نے اس وقت ڈبیہ میں سر خ رنگ کے مو ئے مبا رک دیکھے تھے ۔(حدیث نمبر :5896)
اب سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ مو ئے مبا ر ک کب اور کیسے حا صل کیے؟حدیث یا تا ر یخ کی کتا بو ں میں اس کے متعلق کو ئی صرا حت نہیں ہے، البتہ ہمیں خا رجی قرا ئن سے اس معمہ کو حل کر نا ہو گا ۔ مکہ مکر مہ سے ہجر ت کے بعد مشر کین نے مسلما نو ں پر مسجد حرا م کے دروا زے بند کر رکھے تھے ہجر ت کے چھٹے سا ل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوا ب آیا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد حرا م میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف کیا ،پھر آپ کو دکھا یا گیا کہ کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈوا ئے اور کچھ نے ہلکے کرا ئے،جب آپ نے اپنے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو اس خوا ب کی اطلاع دی تو وہ بہت خو ش ہو ئے کہ اس سا ل کے مکہ میں دا خلہ نصیب ہو گا اور ہم عمرہ کر یں گے ، چنا نچہ آپ یکم ذو القعدہ 6/ہجر ی سومو ار کے دن پندرہ سو جاں نثا ر وں سمیت مدینہ منورہ سے مکہ مکر مہ روا نہ ہوئے ، آپ کے ہمرا ہ ام المؤ منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، حد یبیہ کے مقا م پر پتہ چلا کہ مشر کین اس سا ل عمرہ نہیں کر نے دیں گے ، چنا نچہ ایک معا ہدہ طے پا یا جو صلح حد یبیہ کے نا م سے مشہو ر ہے، اس میں بظا ہر نا روا شر ئط بھی تھیں، صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم بہت پر یشا ن، غمنا ک اور کبیدہ خاطر ہوئے کہ ہم اس سا ل عمرہ نہیں کر سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب معاہدہ صلح سے فا رغ ہو ئے تو فر ما یا :" اٹھو !اور اپنے جا نو ر قر با ن کر دو لیکن پر یشا نی کی وجہ سے آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم میں سے کو ئی بھی نہ اٹھا، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرا ئی مگرپھر بھی کو ئی بھی نہ اٹھا تو آپ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور لوگوں کے طر ز عمل کا ذکر فر ما یا ، ام المؤ منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بہت زیرک ،صا حب بصیر ت ،دا نا اور عقل مند خا تو ن تھیں، انہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ