کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 36
اس فر قہ بندی سے محفو ظ رہنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ قرآ ن اور صحیح احا دیث کے مطا بق زندگی بسر کی جا ئے اوراس سلسلہ میں دا ئیں با ئیں جھانکنے سے اجتنا ب کیا جا سکے ۔ سوال ۔ملتا ن سے چند ایک احباب جما عت لکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے خطیب صا حب کی کچھ با تیں بہت عجیب سی معلو م ہو تی ہیں، وہ فر ما تے ہیں کہ حنفی، شا فعی، مالکی اور حنبلی اپنی مر ضی کے مطا بق دین بنا تے ہیں اس لیے یہ تمام فقہی مسا لک کے لو گ کا فر ہیں، ان سے نکا ح کر نا، ان کے پیچھے نماز ادا کر نا ،ان کے جنازے پڑ ھنا اور ان سے ورا ثت وغیرہ کے معاملات ممنوع ہیں۔ وہ بطو ر دلیل قرآن مجید کی اس آیت کو پیش کرتے ہیں کہ : ’’ جو لو گ اللہ کی طرف سے نا ز ل شدہ حکم کے مطا بق فیصلہ نہیں کر تے وہی لو گ کا فر ہیں۔‘‘ (5/المائدہ:44) مہر با نی فرما کر اس کے متعلق ہما ری را ہنما ئی فر ما ئیں ۔ جو اب ۔ کسی کو کا فر کہنا، تکفیر کہلا تا ہے، فتنہ تکفیر بہت خطر نا ک، تبا ہ کن اور ہلا کت خیز ہے، اس امت میں سب سے پہلے اس فتنہ کو خوا رج نے برپا کیا ،جنگ صفین کے مو قع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ کے درمیا ن یہ طے پا یا کہ حضرت عمر و بن العا ص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو فیصلہ کر یں وہ فر یقین کو قبو ل ہو گا، اسے معا ہدہ تحکیم کہا جاتا ہے ،خو ارج نے اس معا ہدہ کے آڑ میں امت کے پسندیدہ اور برگز یدہ حضرات کی تکفیر کی، انہو ں نے اپنے اس مو قف کے لئے قرآن پا ک کی ایک آیت بطو ر دلیل پیش کی وہ یہ ہے :"فیصلہ کرنے کا حق تو صرف اللہ کے لئے ہے ۔" (12/یو سف :40) ان کا مطلب یہ تھا کہ جب فیصلہ کر نا اللہ کا حق ہے تو یہ حق بندو ں کے حوا لے کر نا کفر ہے اور یہ حق بندو ں کو دینے وا لے سب کا فر ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما کے ذر یعے ان پر اتما م حجت کرتے ہو ئے ان کی غلطی کو واضح کیا، جب وہ با ز نہ آئے تو نہر وا ن کےمقام پر ان کی خوب سرکوبی کی ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہی کے متعلق فر ما یا تھا : کہ خا رجی اللہ کی مخلوق میں سے بد تر ین لو گ ہیں، انہو ں نے جو آیا ت کفار کے متعلق نا ز ل ہو ئی تھیں ان کو مسلما نو ں پر چسپا ں کر دیا ۔(صحیح بخا ری :المر تد ین ، باب 6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ تکفیر کی سنگینی با یں الفا ظ بیا ن فرمائی کہ جب کو ئی شخص اپنے بھا ئی کو " اے کا فر " کہتا ہے تو ان دو نو ں میں سے ایک کا فر ہو جا تا ہے ۔) صحیح بخا ر ی ، کتا ب الا دب:6103) اس حد یث کا مطلب یہ ہے کہ جس کو کا فر کہا گیا ہے اگر فی الحقیقت کا فر ہے تب تو وہ کا فر ہو ا ، اگر وہ واقعتا کافر نہیں تو کہنے ولا کا فر ہو گیا ، یعنی تکفیر دو د ھا ری تلوا ر ہے جس نے کسی ایک کو ضرور کا ٹنا ہے ،اس لیے کسی کو کا فر کہنے میں بہت احتیا ط کی ضرو ت ہے، ہما ر ے اسلا ف اس سلسلہ میں بہت محتا ط تھے ، وہ کسی کلمہ گو ا ہل قبلہ کو کا فر نہیں کہتے تھے، انہو ں نے تکفیر کے لئے قو اعد و ضو ابط وضع کئے ہیں جن کا ہم آیندہ تذکرہ کریں گے ۔ تا ہم امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکو رہ با لا حدیث پر بایں الفا ظ عنوا ن قا ئم کیا ہے: ’’ جو شخص اپنے بھا ئی کو بلا و جہ کا فر کہتا ہے وہ خو د کا فر ہو جا تا ہے۔‘‘ امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے اس فتنہ کی تبا ہ کا ر یوں کو بچشم خو د ملا حظہ کیا تھا۔ اس لیے وہ اپنی صحیح میں اس کے قوا عد و ضو ا بط کی طرف اشا رہ کرتے ہو ئے ایک عنوا ن یو ں قا ئم کر تے ہیں :’’ اگر کسی نے معقو ل وجہ