کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 35
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی دو قسم کا عذا ب اس امت کے کلی استیصا ل کے لئے نہیں آئے گا، البتہ جز وی طور پر آسکتا ہے ،رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں مو جو د ہے جس نے ملت اسلا میہ کی و حد ت کو پا ر ہ پا رہ کر کے مسلما نوں کو ایک مغلو ب قو م بنا رکھا ہے ،چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشین گو ئی فر ما یا تھا : " بنی اسرائیل بہتر فر قو ں میں تقسیم ہو گئے جبکہ میر ی امت تہتر فر قو ں میں بٹ جائے گی، ایک گر و ہ کے علا وہ سب فر قے جہنم کا ایندھن ہو ں گے ۔صحا بہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نجا ت یا فتہ کو ن ہو ں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: جو اس راہ پر چلیں گے جس پر میں اور میرے اصحا ب ہیں ۔(جا مع تر مذی : الا یما ن 2641) اس حدیث میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معیا ر کی نشا ندہی فر ما دی ہے جو قیا مت کے دن اس کے عذا ب سے نجا ت کا با عث ہو گا ۔ قرآن پا ک میں اسے صرا ط مستقیم اور سبیل المؤ منین کے نا م سے یاد کیا گیا ہے، اللہ تعا لیٰ نے دوسرے مقا م پر فر قہ با ز وں کو مشر کین کے لفظ سے ذکر کیا ہے، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :’’اور ان مشر کین سے نہ ہو جا ؤ جنہو ں نے اپنا دین الگ کر لیا اور گر وہو ں میں بٹ گئے، ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے ۔‘‘(30/الرو م :32) اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہبی یا سیا سی فرقہ کا آغا ز بدعی عقید ہ یا بد عی عمل سے ہو تا ہے، مثلاً کسی رسول یا بزرگ کو اس کے اصلی مقا م سے اٹھا کر اللہ کی صفا ت میں شر یک بنا دینا یہی وہ غلو فی الدین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فر ما یا ہے، پھر یہ فرقہ با ز ی عمو ماً دو قسم کی ہو تی ہے ۔ ایک مذہبی جیسے کسی امام کی تقلید میں با یں طور انتہا پسندی سے کا م لینا کہ اس امام کو منصب رسا لت پر بٹھا دینا گو یا وہ معصوم عن الخطا ہے یا کسی معمو لی اختلا ف کو کفر و اسلا م کی بنیا د قرار دینا یا یا کسی اہم اختلا ف کو باہمی رواداری کے خلا ف خیا ل کر نا وغیرہ ۔ دوسری سیا سی جیسے علا قا ئی ، قو می ، لسا نی بنیا دوں پر لو گو ں کو تقسیم کر نا۔ درج ذیل عقا ئد اس فرقہ بازی کی زد میں آتے ہیں ۔ (1)اللہ کے بجا ئے عوا م کی با لا دستی اور انہیں طا قت کا سر چشمہ قرار دینا ۔ (2)اللہ کی ذا ت اور ابنیا ء علیہم السلام کے معجزا ت کا انکا ر ۔ (3) کچھ ائمہ کو معصو م اور ما مون قرا ر دینا ۔ الغر ض جتنے بھی فرقے ہیں خواہ مذہبی ہو ں یا سیا سی، ا ن کا کو ئی عقیدہ یا عمل ضرو ر کتا ب و سنت کے خلا ف ہو گا۔ بد عی عمل کا تعلق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برعکس ہو تا ہے یعنی کسی سنت کو دیدہ دانستہ نظر انداز کر دینا یا کسی نئے کا م کو ثواب کی نیت سے شروع کر دینا وغیرہ، اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ دین میں پہلے کمی رہ گئی تھی جو اس تر میم یا اضا فہ سے پو ری کی جا رہی ہے (اعا ذ نا اللہ منہ ) اگر مز ید غور کیا جا ئے تو گر وہ بندی کی تہ میں دو ہی اغرا ض پوشیدہ ہو تی ہیں، ایک ما ل کی محبت ،دوسرے اقتدار کی چا ہت۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ بکر یو ں کے کسی ریوڑ میں دو بھو کے بھیڑیے اتنی تبا ہی نہیں مچا تے جتنا ما ل کی محبت اور منصب کی چا ہت کسی کے ایما ن کو بر با د کر تی ہیں۔ (جامع تر مذی،الز ہد :2376)