کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 34
ظا ہری سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت گرا می ہی بنی تھی ورنہ حقیقت میں غنی بنا نے وا لا اللہ تعالیٰ ہی تھا، یہی وجہ ہے کہ آیت کر یمہ میں جب فضل کا ذکر ہو ا ہے تو اس کے سا تھ واحد کی ضمیر استعمال ہو ئی ہے یعنی اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کر دیا ، دوسرے الفا ظ میں فضل و کر م کر نا صرف اللہ کا کا م ہے اس میں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرا برا بر بھی حصہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تاتو اس کے سا تھ تثنیہ کی ضمیر استعما ل کی جا تی بلکہ خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعا لیٰ کے فضل کے محتا ج ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ قیا مت کے دن تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجا ت نہیں دے گا ۔ صحا بہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ مجھے بھی میرا عمل نجات نہیں دلا ئے گا ہا ں اگر اللہ کا فضل میر ے شا مل حا ل ہو جائے تو الگ با ت ہے ۔"(صحیح بخا ری : الر قا ق 6463)
نیز حضرت عثما ن بن مظعو ن رضی اللہ عنہ کی وفا ت کے مو قع پر جب ان کے متعلق حسن ظن کا اظہا ر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : "اللہ کی قسم ! مجھے اللہ کا رسول ہو نے کے با و جود علم نہیں کہ قیامت کے دن میر ے سا تھ کیا سلو ک کیا جا ئے گا ؟"آخر میں ہم اپنے معزز قا ر ئین اور سا ئلین سے گزارش کر یں گے کہ اسباب کے بغیر دا تا، غوث اعظم ،مشکل کشا اور غر یب نو از صر ف اللہ کی ذا ت ہے، لہذا جب بھی دعا ما نگو یا مدد کے لئے پکا رو تو صر ف اللہ تعا لیٰ کی طرف رجو ع کرو ۔
سوال۔محمد بشیر بذریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ فرقہ با ز ی کیا ہے ؟ جسے اللہ تعا لیٰ نے معیو ب قرار دیا ہے، حکو مت اور عوام النا س بھی اس کی مذمت کرتے ہیں ۔
جوا ب ۔ اہل تفرق کے متعلق ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے : "جن لو گو ں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈا لا اور خود فرقوں میں بٹ گئے ، ان سے آپ کو کچھ سرو کا ر نہیں ان کا معا ملہ اللہ کے سپر د ہے ۔(6/الانعا م:159)
فرقہ با زی ایک ایسی لعنت اور با عث مذمت ہے جو ملت کی و حد ت کو پارہ پا رہ کر کے رکھ دیتی ہے جن لوگوں میں یہ عا د ت بد پا ئی جا تی ہے ان کی سا کھ اور عزت دنیا کی نظرو ں سے گر جا تی ہے ،اللہ تعا لیٰ نے فرقہ بند ی کو اپنے عذا ب کی ایک شکل قرار دیا ہے ،چنا نچہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :’’ آپ ان سے کہہ دیجیے !اللہ اس با ت پر قا در ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کو ئی عذا ب نا ز ل کر ے یا تمہا رے پا ؤں کے نیچے سے کو ئی عذا ب مسلط کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک فرقے کو دوسرے سے لڑا ئی کا مزا چکھا دے ۔‘‘ (6/الانعا م :159)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت با لا میں ذکر کر دہ تمام قسم کے عذا بو ں سے اللہ کی پنا ہ ما نگی اور دعا کی کہ میر ی امت پر اس قسم کے عذاب نہ آئیں، چنا نچہ پہلی اور دوسری قسم کے عذا بو ں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبو ل ہو گئی مگر تیسری قسم کے عذا ب جو فر قہ بند ی سے متعلق ہے دعا قبو ل نہ ہو ئی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عذا ب کو پہلے دو نو ں عذ ابو ں کی نسبت آسا ن قرار دیا ہے۔(صحیح بخا ری تفسیر 4628)