کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 33
لیکن اللہ تعا لیٰ کا سمیع ہو نا ،اللہ کا بصیر ہو نا ،اس کی شا ن کے مطا بق ہے اور بند ے کا سمیع و بصیر ہو نا اس کی شان کے لا ئق ہے، یعنی بندے کی سماعت و بصا رت انتہا ئی محدود ہے کیو نکہ بندہ پس پردہ نہ کو ئی چیز دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے، جبکہ اللہ تعا لیٰ ایسے عیو ب و نقا ئص سے پاک ہے، اللہ تعا لیٰ نے یہ بھی صراحت فر ما ئی ہے کہ اس کی ذا ت و صفات میں کو ئی دوسرا اس جیسا نہیں ہے ۔ (42/الشوری:11) سوال میں خو د ہی ان نفوس قدسیہ کی طرف ایسی صفا ت کا انتساب کیا گیا ہے جس کا ثبو ت قرآن و حدیث میں نہیں ہے، پھر خو د ہی صغریٰ کبریٰ ملا کر اس سے ایک غلط مقصد کشید کر لیا گیا کہ اللہ مشکل کشا ہے تو علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا کیو ں نہیں ؟مشکل کشا تو اللہ کی صفت ہے اسے مخلو ق میں کس بنیا د پر تسلیم کیا جائے، حضرت علی رضی اللہ عنہ تو خو د مشکلات میں پھنسے رہے وہ اپنے لئے مشکل کشا ئی تو نہ کر سکے دوسر وں کے لئے کیو نکر مشکل کشا ہو سکتے ہیں ۔ارشا د باری تعا لیٰ ہے : ’’ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اچھا یہ توبتاؤکہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکا رتے ہو ا اگر اللہ مجھے نقصا ن پہنچا نا چا ہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ؟ یا اللہ تعا لیٰ مجھ پر مہر با نی کا ارادہ کر ے تو کیا یہ اس کی مہر با نی کو روک سکتے ہیں ۔‘‘(39/الزم:38) اللہ تعا لیٰ نے اس آیت کر یمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوزیشن کو واضح فر ما یا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقا بلہ میں کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ مشکل کشا بن جائیں، کتا ب و سنت میں اس کے لئے کو ئی سند نہیں ہے یہ سب خو د سا ختہ اور ایجا د بندہ ہیں، بلا شبہ سو ر ۃیو سف میں متعدد مر تبہ باد شا ہ کے لئے رب کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ اضا فت کے سا تھ ہے جس کا معنی آقا یا ما لک کے ہیں جبکہ اللہ تعا لیٰ کے لئے لفظ رب علی الاطلا ق اور اضا فت کے سا تھ دو نو ں طرح مستعمل ہے، پھر جب بندہ کے لئے اس لفظ کا استعما ل ہو تا ہے تو اس کی تانیث بھی کلا م عر ب میں مستعمل ہے، مثلاً گھر کی ما لکہ کو عر بی میں(ربۃ البیت )کہتے ہیں جبکہ اللہ تعا لیٰ کے لئے اس کی تانیث کا استعمال شرک اکبر ہے ۔سوال میں یہ استدلال بھی عجیب ہے کہ اگر بادشا ہ رب ہے تو علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ داتا اور شیخ عبدالقا درجیلانی رحمۃ اللہ علیہ غو ث اعظم کیوں نہیں ؟یہ تو ایسا ہی استدلال ہے کہ ایک شخص کسی دوسر ے شخص کے باپ کا ہم نام ہو تو پہلا شخص دعویٰ کر دے کہ میرا با پ آپ کے با پ کی جا ئیداد میں برا بر کا شریک ہے، کسی کے ہم نا م ہو نے کا یہ معنی نہیں ہے کہ کو ئی دوسر ا ان جا ئیداد میں حصہ دار ہے۔ سوال میں قرآن کر یم کے حو الے سے ایک اور مغا لطہ دینے کی کو شش کی گئی ہے جو مجر ما نہ کوشش کے مترا دف ہے، یعنی اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا ، قرآن کر یم میں اس قسم کے الفا ظ قطعاً نہیں ہیں، اگر ایسا سہواً نہیں ہوا تو یہ ایک ایسی تحر یف ہے جس کا ارتکا ب یہودی کیا کرتے تھے۔ قرآن کر یم میں ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے:’’ منافقین صرف اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول نے دولت مند کر دیا ہے۔‘‘ (10/التوبہ:74) اس آیت کر یمہ سے یہ مفروضہ کشید کیا گیا ہے کہ اللہ کے سا تھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی فضل فر ما تے ہیں تو " یا رسول اللہ ! فضل کر یں "کہنا بھی صحیح ہے، العیا ذ با اللہ،حا لا نکہ اللہ تعا لیٰ کے سا تھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس لیے ہے کہ اس غنا اور تو نگری کا