کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 31
وکیع کے دوسر ے شا گر د اسے ذکر نہیں کر تے، دوسرے شاگردوں کی روایت کے الفا ظ یہ ہیں :"تم میں کو ئی بھی اپنے غلا م کو "عبدی" نہ کہے بلکہ خدمت گار کہہ کر آواز دے، اسی طرح کوئی غلام اپنے آقا کو "ربی " نہ کہے بلکہ وہ سیدی کے الفاظ استعما ل کرے۔‘‘ (مسندامام احمد:2/443) اس وضا حت سے بلا اضا فہ روایت کے محفوظ ہو نے کا پہلو واضح ہو جا تا ہے ۔ (4)اضا فہ والی روایت کی سند یوں ہے :"ابو سعید " الاشج عن وکیع عن الاعمش عن ابی صا لح عن ابی ہریرۃ ، حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے جب ابو صا لح کے علاوہ دوسرے شا گر د اس روایت کو بیا ن کر تے ہیں تو وہ اس اضا فہ کو ذکر نہیں کر تے، ان کی تفصیل یہ ہے : (1) عن العلاء بن عبد الر حمن عن ابیہ عن ابی ہریرہ(مسند امام احمد :2/463) (2) ہشا م عن محمد بن سیر ین عن ابی ہریرہ(مسند امام احمد :2/491) (3)ایو ب عن محمد بن سیر ین عن ابی ہریرہ(مسند امام احمد :2/423) ان ہر سہ طرق میں مذکو رہ با لا اضا فہ نہیں ہے، حضرت جریر، ابن نمیر اور یعلیٰ کے سا تھ ان حضرات کو ملانے سے اس با ت کو تقویت ملتی ہے کہ مذکورہ اضا فہ غیر محفو ظ ہے۔ ہم نے شروع میں ایک حدیث کے حوالے سے لکھا ہے کہ اپنے آقا کو مو لیٰ کہا جا سکتا ہے جبکہ اضا فہ والی روایت میں اس کی صریح ممانعت ہے۔اس صورت حا ل کے پیش نظر ایک روایت کو مرجو ح قرار دئیے بغیر تطبیق کی کو ئی صورت سا منے نہیں آتی ۔ محدثین کرا م نےا ضا فہ کے بغیر صرف اصل روایت کو راجح قرار دیا ہے، چنا نچہ حا فظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ہم نے اضا فہ کو کا لعدم قرار دے کر ترجیح کی ایک صورت پیدا کی ہے کیوں کہ دو نو ں روا یا ت با یں طو ر متعارض ہیں کہ جمع و تطبیق نا ممکن ہے اور تا ریخ کا بھی علم نہیں تا کہ ایک کو نا سخ اور دوسری کو منسو خ قرار دیا جا ئے ۔(فتح البا ری :5/180) اس طرح علا مہ نو و ی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کہ راویا ن حدیث نے حضر ت اعمش سے اس لفظ یعنی مو لیٰ کو نقل کر نے میں اختلاف کیا ہے بعض ذکر کر تے ہیں جبکہ کچھ دوسر ے ذکر نہیں کر تے، ہما رے نز دیک اس اضا فہ کا حذف کر دینا زیادہ صحیح ہے۔ (شرح نو وی 2/238طبع ہند ) مذکو رہ با لا تصر یحا ت کی روشنی میں ان دو ثقہ راویوں ابو معا ویہ اور ابو سعید الاشج کا یہ اضا فہ شاذ اور غیر محفو ظ معلوم ہو تا ہے اور انہی الفا ظ پر مما نعت کی بنیا د ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔راولپنڈی سے میجر احتشا م کیا نی لکھتے ہیں کہ اللہ اکبر ہے ، صدیق بھی اکبر ہیں، اللہ اعظم ہے، فا روق بھی اعظم ہیں، اللہ غنی ہے، عثما ن بھی غنی ہیں، اللہ مشکل کشا ہے علی مشکل کشا کیو ں نہیں ؟گو خا لق اپنی شان کے مطابق ہے اور مخلو ق اپنی شا ن کے مطابق ، اللہ تعا لیٰ قرآن میں با دشا ہ کو رب کہتا ہے، اگر بادشاہ رب ہے تو علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور جیلانی رحمۃ اللہ علیہ داتا اور غوث کیوں نہیں ؟ قرآن میں ہے کہ اللہ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دیں گے، یعنی اللہ کے ساتھ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی فضل فرما تے ہیں تو کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ یا رسول اللہ! فضل کر یں؟