کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 30
پندرہ معا نی کے لئے اس کے استعمال کی نشاندہی فر ما ئی ہے ۔ جن میں آقا ،ما لک، ناصر،دوست،آزاد کنندہ اور آزاد کردہ غلا م وغیرہ بھی شا مل ہیں۔ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:کہ لفظ مو لیٰ ادنیٰ اور اعلیٰ دو نو ں کے لئے استعما ل ہو تا ہے جبکہ لفظ سید صرف اعلیٰ اور محترم ذات کے لئے مخصوص ہے، جب غیر اللہ کے لئے لفظ سید استعما ل ہو سکتاہے تو غیر اللہ کے لئے لفظ مو لیٰ کےاستعمال پر کرا ہت کی کو ئی معقو ل وجہ نہیں ۔(فتح البا ری :5/180)
مذکو رہ با لا سوال میں ذکر کر دہ الفا ظ ایک طویل حدیث کا حصہ ہیں بلکہ اصل حدیث میں اضا فہ کی حیثیت رکھتے ہیں، حدیث کا متن یو ں ہے کہ ’’ تم میں کو ئی اپنے غلا م کو "عبدی " نہ کہے کیو نکہ تم سب اللہ کے بندے ہو، چاہیے کہ میرا نو کر یا میرا خدمتگار کے الفا ظ کہے جا ئیں اسی طرح کو ئی غلام اپنے آقا کو "ربی " نہ کہے بلکہ اسے "سیدی "کہنا چا ہیے ۔‘‘
(صحیح مسلم : کتا ب الالفا ظ من الادب )
یہ حدیث بروایت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کئی ایک طرق سے مرو ی ہے جن کی تفصیل کچھ یو ں ہے :
(1)جریر بن عبدالحمید عن الاعمش ،(صحیح مسلم)
(2)عبد اللہ بن نمیر عن الاعمش ۔(مسند امام احمد:2/496)
(3)یعلیٰ بن عبید عن الا عمش ۔(مسند امام احمد:2/496)
(4)ابو معا و یہ محمد بن حازم عن الاعمش ۔(صحیح مسلم )
(5)ابو سعید عبد اللہ بن سعید الا شج عن وکیع عن الاعمش۔(صحیح مسلم)
یہ پا نچوں حضرات ثقہ اور بخا ری و مسلم کے رجال سے ہیں مؤ خر الذ کر دو حضرات یعنی ابو معا ویہ اور ابو سعید الا شج نے اس روا یت میں مذکو رہ با لا "اضا فہ" نقل کیا ہے جب کہ اول الذ کر تین راوی یعنی جر یر ابن نمیر اور یعلیٰ اس اضا فہ کے بغیر نقل کر تے ہیں ۔ روا یت میں مذکو رہ اضا فہ کو تسلیم کر نے یا نہ کر نے کے متعلق ہما رے سا منے دو را ستے ہیں ۔
(1)محدثین کے اصول کے مطا بق کہ ثقہ کا اضا فہ قبول ہو تا ہے، اس اضافہ کو قبو ل کیا جا ئے۔
(2)بیشتر ثقہ راویوں کی مخا لفت کی بنا پر اس اضا فہ کو شا ذ قرار دے کر صرف اصل حدیث کے الفا ظ کو تسلیم کیا جا ئے ۔
ہما رے نزدیک مذکو رہ اضا فہ کے متعلق مؤخر الذ کر صورت زیا دہ را جح ہے ۔چنا نچہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :"امام مسلم نے حضرت اعمش سے منقول اس روایت کے متعلق اختلا ف نقل فر ما یا ہے ،چند راوی اس اضا فہ کو نقل کرتے ہیں جب کہ بعض دوسرے راوی صرف اصل حدیث ذکر کر نے پر اکتفا کرتے ہیں۔ قاضی عیا ض رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس اضا فہ کو روایت سےحذف کر دینا زیادہ صحیح ہے اور علا مہ قرطبی کا بھی یہی مو قف ہے ۔" (فتح الباری :5/180)
ہم نے اس اضا فہ کو شاذ قرار دیا ہے، اس کےدرج ذیل دلا ئل ہیں :
(3)ابو سعید الاشج جب حضرت اعمش سے بواسطہ حضرت وکیع روایت کر تے ہیں تو مذکو رہ الفا ظ یعنی اضا فہ نقل کر تے ہیں جبکہ حضرت