کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 29
کو ئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا حقیقی بندہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس طا غو ت کا منکر نہ ہو اور اللہ کی بندگی سے منہ موڑ کر انسا ن صرف ایک طاغو ت کے چنگل میں ہی نہیں پھنسا بلکہ بہت سے طواغیت اس پرمسلط ہو جاتے ہیں، ایک طا غو ت شیطا ن ہے جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی تر غیبا ت کا سدا بہا ر سبز با غ پیش کرتا ہے، دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے جو اسے خوا ہشا ت کا غلا م بنا کر زندگی کے ٹیڑھے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، ان کے علا وہ بے شما ر طا غو ت باہر کی دنیا میں پھیلے ہو ئے ہیں، بیو ی اور بچے ، اعزہ و اقربا، برادری، خا ندان، دوست اور آشنا، سو سا ئٹی اور قو م، پیشوا اور راہنما، حکو مت اور حکا م یہ سب بندے کے لئے کبھی طاغوت کی حیثیت اختیا ر کر جا تے ہیں اور اس سے اپنی اغرا ض کی بند گی کرا تے ہیں، پھر بے شما ر آقا ؤ ں کا یہ غلا م سا ری عمر اس چکر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خو ش کر ے اور کس کی ناراضگی سے محفو ظ رہے۔ مختصر یہ ہے کہ طا غو ت ہر وہ با طل قوت ہے جو اللہ کے مقا بلہ میں اپنی عبا دت یا اطا عت کرا ئے یا لو گ ازخو د اللہ کے مقا بلہ میں اس کی اطاعت کر نے لگیں خو اہ وہ مخصوص شخص ہو یا ادارہ ، گو یا طاغو ت سے مراد دنیا دار چودھری اورحکمران بھی ہو سکتے ہیں، بت، شیطا ن اور جن بھی ہو سکتے ہیں اور ایسے پیر فقیر بھی ہو سکتے ہیں جو اللہ کے مقا بلہ میں اپنی اطاعت کرو انا پسند کر تے ہیں اور شر یعت پر طریقت کو تر جیح دیتے ہیں ، اس طرح ہر انسان کا اپنا نفس بھی طا غو ت ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی اطاعت و عباد ت سے انحراف کر رہا ہو۔ ان سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ان سب کا انکا ر کر دیا جائے، جیسا کہ ارشاد با ر ی تعالیٰ ہے ۔’’اب جو شخص طا غو ت سے کفر کر ے اور اللہ پر ایمان لا ئے تو اس نے ایسے مضبو ط حلقہ کو تھا م لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا ۔‘‘(2البقرہ256) دوسر ے مقا م پر ارشا د فر مایا :’’ جو لو گ طا غو ت کی عبا دت کر نے سے بچتے رہے اور اللہ کی طرف رجو ع کیا ان کے لئے بشا رت ہے، لہذا آپ میرے بندو ں کو خو ش خبر ی دے دیجیے جو با ت کو تو جہ سے سنتے ہیں ، پھر اس کے بہتر ین پہلو کی پیر وی کر تے ہیں ۔ یہی وہ لو گ ہیں جنہیں اللہ نے ہدا یت بخشی اور یہ عقل مند ہیں۔‘‘(39/الزمر:18)---(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ سمند ری سے نا در خا ں لکھتے ہیں کہ جما عت المسلمین وا لے علماءحضرات کو " مو لا نا " کہنا شر ک بتا تے ہیں اور وہ بطور حدیث یہ پیش کرتے ہیں کہ’’ کو ئی غلا م اپنے آقا کے لئے لفظ مو لیٰ استعما ل نہ کر ے کیونکہ تمہارا مو لیٰ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم ۔کتاب الادب) کیا واقعی علماءحضرات کو "مو لانا" کہنا شر ک ہے ؟قرآن و حدیث کی رو سے اس کی وضا حت فر ما ئیں ۔ جوا ب ۔ عزت و احترا م کے پیش نظر علماءحضرات کو "مو لا نا"یا "مولوی "کہا جا سکتا ہے اور ایسا کر نا شرک نہیں ہے، جیسا کہ جماعت المسلمین کی طرف سے یہ تا ثر دیا جا تا ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مو لیٰ کو غیر اللہ کے لئے استعمال فر ما یا بلکہ استعما ل کی تلقین بھی فرما ئی ہے ۔حدیث میں ہے کہ" تم میں سے کو ئی یوں نہ کہے کہ اپنے رب کو کھا نا دو اپنے رب کو وضو کرا ؤ،بلکہ اپنے آقا کے لئے "سید "اور "مولیٰ"کہا جائے۔ (صحیح بخا ری :کتا ب العتق ) اس حدیث کی رو سے غیر اللہ کے لئے لفظ "سید"کا استعمال بھی جا ئز معلوم ہو تا ہے جو صرف اعلیٰ اور محترم شخصیت کے لئے استعمال ہو تا ہے۔ تو لفظ مو لیٰ کا اطلاق تو با لا و لیٰ جا ئز ہو نا چاہیے جو اعلیٰ اور ادنیٰ دو نو ں کے لئے مستعمل ہے۔ علا مہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے