کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 20
جہا لت کا علاج کسی سے پو چھ لینا نہیں تھا ؟"(مصنف عبد الرزا ق:حدیث نمبر 7867)
(5)مزا ج میں اعتدا ل :امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں : مفتی کے لئے کسی صورت میں بھی جا ئز نہیں کہ وہ سخت غصے، شدید بھوک ، انتہا ئی پر یشا نی ، غلبہ نیند، ہنگا می حا لات، حاجت بو ل و برا ز، قلبی مشغو لیت یا ایسی کو ئی چیز محسو س کر ے جس سے اس کا مز اج معتدل نہ رہے اور وہ مسئلہ کا پو ری طرح ادراک نہ کر سکے تو اسے فتو یٰ نہیں دینا چا ہیے، اگر ایسی حا لت میں فتو یٰ صحیح ہو ا تو اللہ تعا لیٰ کی عظیم عنا یت ہے بہر حا ل مفتی حضرات کو مذکورہ حا لا ت میں فتویٰ دینے سے گریز کر نا چا ہیے ۔ (اعلام المو قعین:ج ا ص227)
(6)سہل انگا ری اور جلد با ز ی :فتو یٰ دینے میں سہل انگا ری سے کام لینا حرا م ہے اورجو شخص اس سلسلہ میں مصرو ف ہو اس سے فتویٰ لینا درست نہیں ہے، واضح رہے کہ سہل انگاری کا مطلب یہ ہے کہ کا مل غو ر و فکر اور تحقیق کے بغیر فتویٰ دیا جائے، اس بنا پر مفتی کے لئے ضرو ری ہے کہ وہ فقہ الواقع اور فقہ النوا زل کا ادراک کر ے ،اس کے علا وہ عر ف عا م اور جدید اصطلا حا ت سے بھی واقف ہو، نیز فتو یٰ کا مضمون واضح ہو ،یعنی مبہما ت، اشارات اور کنایات سے گریز کیا جا ئے تا کہ کج فہم لو گ اس کے فتویٰ سے اپنا مطلب نہ کشید کر سکیں ۔ (المجموع :ج ا ص 79)
(7)را ز کی حفا ظت :مفتی کی حیثیت ایک طبیب کی سی ہو تی ہے لو گ اس کے پا س اپنے ذا تی احوا ل و ظرو ف بیا ن کر کے فتویٰ طلب کر تے ہیں اور وہ نہیں چا ہتے کہ ان کے ذا تی رازوں پر کو ئی دوسرا مطلع ہو ،ایسے حا لا ت میں مفتی کو چاہیے کہ وہ سا ئلین کے اسرا ر و خصو صی احوا ل کو کسی پر ظا ہر نہ کر ے کیونکہ ایسا کر نا خیا نت ہے ۔ (الفتاوی الشرعیہ:ج ا ص 75،)
(8)فتویٰ سے رجو ع :اگر فتو یٰ دینے کے بعد مفتی کو معلو م ہو کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے تو ضروری ہے کہ اپنے فتویٰ سے رجو ع کر لیا جا ئے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا کہ با طل میں پیش قدمی کر نے سے بہتر ہے کہ حق کی طرف رجوع کر لیا جا ئے۔
(اعلام الموقعین :ج ا ص 86،)
پھر اپنے رجو ع سے لو گو ں کو مطلع بھی کر نا چا ہیے ۔
(9)وضا حت مزید:اگر مفتی کسی کو پیش آمدہ مسئلہ یا کو ئی ضر و ری شر عی حکم سمجھا نا چا ہتا ہو تو اسے مو قع کو غنیمت سمجھتے ہو ئے سائل کو مزید پندو نصا ئح سے نو ا ز نا چاہیے جیسا کہ ایک مر تبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پا نی کے متعلق سوال ہو ا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مو قع سے فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے سا ئل کو سمندر کے مردہ جا نو رو ں کے متعلق بھی آگا ہ فر ما دیا ۔"سمندر کا پا نی پاک ہے اور اس کا مردا ر حلا ل ہے ۔ "(جا مع ترمذی :ج ا، ص 101)
مستفتی کے آدا ب
فتو یٰ طلب کر نے وا لے کو مستفتی کہا جا تا ہے، اس کے آدا ب حسب ذیل ہیں جن کا ملحو ظ رکھنا ضر وری ہے:
(1)حقیقت بیا نی :
سا ئل کو چا ہیے کہ وہ فتو یٰ طلب کر تے وقت تما م احوا ل و واقعا ت سے مفتی کو آگا ہ کر ے اس سلسلہ میں کسی قسم کی چشم پو شی سے کا م نہ لے تا کہ فتویٰ پیش آمدہ صورت حا ل کے عین مطا بق ہو ،اگر حقا ئق کو چھپا کر کسی چیز کی حلت کا فتویٰ حا صل کر لیا تو وہ چیز اس کے لئے حلال نہ ہو گی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مو قع پر اس کی وضا حت فر مائی :" کہ تم میرے پاس اپنے تنازعات