کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 19
(5)وہ لو گو ں کی عادات و رسو م اور ان کے احو ا ل و ظرو ف نیز زمینی حقا ئق سے آگا ہ ہو ۔ (اعلا م الموقعین:ج4،ص152)
مفتی کے فرا ئض
فتو یٰ دینے والے حضرا ت کی متعد د ذمہ دا ریا ں ہیں جن کی بجا آوری ضروری ہے، ہم ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کر تے ہیں ۔
(1)تو اضع:
مفتی کو چا ہئے کہ وہ متوا ضع اور متفکر المزاج ہو ا گر کو ئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے یا اس کے جوا ب سے خو د مطمئن نہ ہو تو صا ف صا ف کہہ دیا جا ئے کہ مجھے معلو م نہیں ۔صرف عزت نفس کو بچا نے کے لئے کو ئی نہ کو ئی جواب ترا شنا یا ظن و تخمین سے اس کا جو اب دینا درست نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں :"جب آپ سے کو ئی ایسا مسئلہ دریافت کیا جا ئے جسے آپ نہیں جا نتے تو اس کے جواب سے راہ فرار اختیار کرو۔شاگردو ں نے پو چھا :وہ کیسے ؟تو فر ما یا :"کہو اللہ ہی بہتر جا نتا ہے ۔ (مسنددارمی رحمۃ اللہ علیہ :ج ا،ص275)
حضرت امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :"ایک مسئلہ دریا فت کیا گیا ،آپ نے جوا ب دیا کہ مجھے معلو م نہیں ۔سا ئل نے کہا :معمولی سا مسئلہ بھی آپ کو معلو م نہیں تو امام صاحب غصہ میں آکر فر ما نے لگے :"علم میں کوئی چیز معمولی نہیں ہے ۔ (المجموع للنووی :ج ا ،ص82/)
امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :"سا ئل کو اللہ اعلم سےجواب دینا بھی نصف علم ہے ۔(مسند دارمی :ج ا،ص276)
علا مہ ا بن صلا ح فر ما تے ہیں :"کہ سلف صالحین سے جب مسا ئل دریا فت کیے جا تے اور انہیں اگر جواب معلوم نہ ہو تا تو بلادھڑک کہہ دیتے کہ میں نہیں جا نتا یا جو اب معلو م ہو نے تک اسے مؤخر کر دیتے کہ بعد میں جو ا ب دو ں کیو نکہ جس چیز کا علم نہ ہو اسے تسلیم کر لینا ہی عا لم کی شا ن ہے ۔(ادب الفتویٰ:ج ا ۔ص8)
(2)حسن عمل: جس نیکی اور بھلا ئی کے کا م میں جوا ز کا فتو ی دیا جا ئے یا کسی برا ئی اور اس کی حرمت کا کہا جا ئے تو مفتی کو چاہیے کہ اپنے فتوی پر خو د بھی عمل پیرا ہو کیو نکہ مخا لفت کی صورت میں سا ئل اس کا فتو یٰ قبو ل کر نے سے انکا ر کر دے گا یا کم ا ز کم شکو ک و شبہا ت میں مبتلا ہو گا ۔ (الفتا وی الشر عیہ :ج ا ص،74)
(3)صبر و تحمل:فتو یٰ پو چھنے والااگر کمز ور فہم کا حا مل ہو تو مفتی کو چا ہیے کہ اس کے ساتھ شفقت اور نر می سے پیش آئے اور صبرو تحمل کے سا تھ اس کی گفتگو سنے، پھر نر می کے سا تھ اس سے مسئلہ کی جزئیا ت معلوم کر ے اس کے بعد محبت کے سا تھ اس کا جوا ب دے ۔اللہ تعالیٰ اس کا م پر بہت اجر دیں گے ۔(ادب الفتویٰ:ص101)
(4)مشورہ :
اگر قر آن و حدیث کی کو ئی عبا رت سمجھ نہ آئے یا کسی مسئلہ کے متعلق کو ئی مشکل در پیش ہو تو جید اور قا بل اعتما د علما ئے کرا م سے اس کے متعلق مشورہ کر لیا جا ئے ۔اللہ تعا لیٰ نے خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا اور ارشاد با ر ی تعا لیٰ ہے :"آپ ان سے مشو رہ کر لیا کر یں ۔" (42/الشوریٰ:38)
نیز حدیث میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ عہد مبا ر ک میں ایک شخص زخمی ہو گیا اور اسی دورا ن اس کو احتلا م ہو ا تو اس کے ساتھیوں نے اسے غسل کر نے کا فتویٰ دیا چنانچہ اس نے غسل کیا اور سردی لگنے سے اس کی مو ت واقعہ ہو گئی ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلا ع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا را ضگی کا اظہا ر کر تے ہو ئے فر ما یا :"اللہ انہیں غا رت کر ے انہوں نے اسے ما ر دیا ہے ،کیا