کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 18
راہنمائی کرنی چاہیے حتیٰ کہ اگر عوام میں سے بھی کوئی صحیح مسئلہ معلوم ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کرے۔ان کے علاوہ بدیہی امور یعنی توحید، اتباع سنت، عبادات اور فکر آخرت سے متعلق لوگوں کو ر اغب کرنے کا فریضہ تو ہر مسلمان کو سر انجام دینا چاہیے، اس لحاظ سے ہر مسلمان مبلغ وداعی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:''میری طرف سے فریضۂ تبلیغ ادا کرو،خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔'' ورع و تقو یٰ فتو ی دیتے وقت مفتی کی نیت خا لص اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خو ف ہو نا چا ہیے، احبا ر ورھبا ن کی طرح نفسا نی خو اہشا ت اور دنیوی مفا دا ت اسے اظہا ر حق اور ابطا ل با طل سے با ز نہ رکھیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :"کسی شخص کو دینی سوا ل کا جواب دینے سے پہلے اپنے آپ کو جنت اور دوزخ پر پیش کر لینا چا ہئے ، پھر نجا ت کا را ستہ معلو م کر کے اسے جوا ب دینا چا ہیے ۔" (المجموع للنووی :ج اص 82) حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ جب کو ئی مسئلہ بتا تے یا کو ئی فتو ی دیتے تو فر ما یا کر تے تھے :"اے اللہ ! مجھے محفو ظ رکھنا اور لوگو ں کو غلط با ت کہنے سے مجھے با ز رکھنا ۔"(الآ داب الشرعیہ :ج 2،ص159) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :"کہ انسا ن کو چا ہیے کہ وہ دینی مسا ئل میں سو چ و سمجھ کر گفتگو کر ے کیونکہ وہ اپنے اعمال واحوال کے متعلق قیامت کے دن جواب دہ ہے ۔"(الآداب الشر عیہ :ج 2 ،ص 155) حضرت ابن خلدہ نے امام ربیع کو نصیحت کر تے ہو ئے فر مایا تھا : "اے ربیع!آپ لو گو ں کو فتو ی دیتے ہیں آپ کے پیش نظر سا ئل کو سہو لت دینا نہیں ہو نا چا ہیے بلکہ آپ کو اپنی نجا ت کی فکر ہو نی چا ہیے کہ میں اس مسئلہ کے بھنو ر سے کیسے خلا صی حا صل کر و ں ۔"(الفقیہ والمتفقہ:ج 2،ص ۔357/) علامہ ابن صلا ح آدا ب مفتی کے متعلق فر ما تے ہیں :"کہ وہ سچا پکا مسلمان ،ثقہ اور امانت دا ر ہو ، فسق و فجور اور اس کے اسبا ب سے بچنے والا اور اخلا ق رذیلہ سے اجتنا ب کر نے ولا ہو کیو نکہ جو شخص ایسے اوصاف کا حامل نہ ہو اس کی با ت قا بل اعتما د نہیں ہو تی اگر چہ وہ مجتہد ہی کیو ں نہ ہو ۔"(ادب الفتو یٰ:ص 30) آخر میں خلاصہ کے طو ر پر ہم امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فر ما ن نقل کر تے ہیں کہ جب تک کسی شخص میں مندرجہ ذیل پا نچ چیز یں نہ ہو ں وہ منصب افتا کے قا بل نہیں ہے : (1)خلو ص نیت کیو نکہ جس کی نیت خا لص نہ ہو اس کے چہرے پر نو ر اور اس کی با ت میں اثر نہیں ہوتا ۔ (2)وہ زیور علم سے آرا ستہ، بردبا ر اور با وقا ر شخصیت کا ما لک ہو، کسی صورت میں جلد با ز ی سے کا م لینے والا نہ ہو ۔ (3) وہ فن (افتا ) میں ما ہر اور پیش آمد ہ مسا ئل حل کر نے پر قدرت رکھنے والا ہو ۔ (4)وہ لو گو ں سے بے نیا ز ہو بصورت دیگر لو گو ں کی نظر میں اس کی ذرا بھر وقعت نہیں ہو گی ۔