کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 17
افترا کرنے لگو،جو لوگ اللہ پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔''(16 النحل :116)
علامہ ابن صلاح اس آیت کریمہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کے مفہوم میں ہر وہ شخص داخل ہے جو فتویٰ دینے میں سہل پسندی اور کج روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قراردیتا ہے۔(ادب الفتویٰ لابن الصلاح :ص 19)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمی انحطاط کی نحوست بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ یکبار گی علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ لوگوں کے دلوں سے کھینچ باہر کرے بلکہ علماء ئے ربانی کوفوت کرنے سے علم کواٹھا ئے گا۔ حتیٰ کہ جب حقیقی علماء کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ علم سے کورے جہلا کو ریاست علم کے مسند نشین مقرر کرلیں گے، پھر جب ایسے لوگوں سے مسائل دریافت کیے جائیں گے تو وہ جہالت اور بے علمی کی وجہ سے غلط فتویٰ دیں گے۔ انجام کار خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔''(صحیح البخاری :العلم 100)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فتویٰ دینا اقلیم علم کی حقیقی بادشاہت ہے ا ور علم کے بغیر فتویٰ دینا انتہائی قابل مذمت اور لائق نفرت ہے۔(فتح الباری:ج1 ص 236)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:''جس شخص نے میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہیے اور اگر کسی مسلمان سے اس کا کوئی مسلمان بھائی مشورہ طلب کرے تو وہ اسے غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی سے خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور جس نے بلاتحقیق اور دلائل میں غور وفکر کئے بغیر فتویٰ صادر کیا اور وہ غلط ہوا تو اس کا گناہ اس مفتی پر ہوگا۔''(مسند احمد :ج2 ص 321)
علامہ خطیب بغدادی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: کہ مسند افتا کا اہل وہ شخص ہوسکتا ہے جو کتاب اللہ کے علوم سے بخوبی آگاہ ہو، ناسخ ومنسوخ، محکم ومتشابہ آیات کی صحیح تاویل وتفسیر، اسباب نزول، مقام نزول اور مراد نصوص سے مکمل طور پر آگا ہ، پھر صحیح وضعیف میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اسی طرح لغت عربی، جو قرآن وحدیث کی زبان ہے، اس کے قواعد واصول سے بھی واقف ہو، عرب شعرا کے کلام سے دلچسپی رکھنے والا ہوتا کہ اسے عربی زبان سمجھنے میں مدد مل سکے۔قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے ہر قسم کے ذرائع ووسائل سے باخبر ہو اس کے ساتھ ساتھ وہ انصاف کی خوبی سے متصف ہو،نیز مختلف علاقہ جات کے لوگوں کی عادات ورسوم اور ان کے عرف سے بھی باخبر ہو ،ا س کے علاوہ اس میں معاملات واحوال کو جانچنے کی صفت اور مہارت ہو، ایسے شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ دینی احکام میں گفتگو کرے اور حلال وحرام کے متعلق فتویٰ دے، اس کے علاوہ دوسرے شخص کے لئے کسی صورت میں جائز نہیں ۔(الفقیہ والمتفقہ :ص 202)
واضح رہے کہ مذکورہ شروط ان علماء فاضل کے لئے ہیں جو ایک مجتہد کی حیثیت سے مسند افتا پرجلوہ افروز ہوتے ہیں وگرنہ عمومی مسائل جو کہ مجالس وعظ اور دروس کے بعد لوگ دریافت کرتے ہیں اگر ان کے متعلق وہ صحیح علم رکھتا ہے تو اسے عوام کی ضرور