کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 148
آپ نے فرمایا:'' اس طرح تو رات میں تین دفعہ وتر پڑھے جاتے ہیں۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو دودفعہ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:''جو لوگ نقض وتر کرتے ہیں وہ گویا اپنی نماز کے ساتھ کھیلتے ہیں۔''(مختصر قیام اللیل :221)
اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر کسی نے رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھ لئے ہیں تو اگر اسے رات کے پچھلے حصے میں نفل پڑھنے کے لئے وقت میسر آجائے تو اسے نفل پڑھنے کی اجازت ہے، وہ نہ تو نقض وتر کرے اور نہ دوبارہ وتروں کو ادا کرے ،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاعمل بھی یہی ہے کہ وہ رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ لیتے تھے۔اگر رات بیدار ہوجاتے تو وہ دو رکعت نفل ادا کرتے۔تاآنکہ اپنی نماز سے فارغ ہوجاتے۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ میں سونے سے پہلے وتر پڑھ لیتا ہوں ۔اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد رات کا قیا م میرے مقدور میں لکھا ہوتا تو میں اٹھ کر دو دو رکعت صبح تک پڑھتا رہتا ہوں۔''حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ میں نماز عشاء کے بعد پانچ وتر پڑھ کر سوجاتاہوں، اگرصبح بیدار ہوجاؤں تو دو دو رکعت پڑھتارہتا ہوں۔اور پہلے سے ادا کردہ وترو ں کوکافی سمجھتا ہوں۔'' حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے بھی یہی عمل مروی ہے، یہ تمام حضرات نقض وتر نہیں کرتے تھے بلکہ ایسا کرنے کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔(مختصر قیام اللیل :221)
پہلے حدیث گز ر چکی ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے، اس سلسلہ میں تفصیلی ر وایت ملاحظہ فرمائیں:
حضرت قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ ایک دن ہماری ملاقات کو آئے، انہوں نے ہمارے ہاں روزہ افطار کیا اور اس رات نمازتراویح وتر سمیت پڑھائی، پھر وہ اپنی مسجد میں تشریف لے گئے، وہاں جا کر اپنے مقتدی حضرات کو نماز پڑھائی، جب وتر رہ گئے تو ایک آدمی کو مصلیٰ پر آگے کردیا اور اسے کہا کہ اپنے ساتھیوں کووتر پڑھا دو کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔''(ابو داؤد:الوتر 1439)
اس پر امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے نقض وتر کاباب قائم کیاہے۔یعنی نقض وتر کا کوئی جواز نہیں ہے۔اگراس کا ثبوت ہوتا توحضرت طلق رضی اللہ عنہ اپنی مسجد میں نماز تراویح پڑھانے سے قبل نقض وتر کرتے اور آخر میں اسے ادا کرتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نقض وتر کے متعلق سوا ل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ نقض وترکی ضرورت نہیں۔جب تم نے پہلے وتر پڑھ لیے ہیں تو آخر شب میں وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ بیداری کے بعد جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لئے جائیں۔''(صحیح بخاری :المغازی 4176)
اسماعیلی کی روایت ہے کہ جب تم نے آخری رات کے کسی حصے میں وتر پڑھنے ہیں تو اول شب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے نقض وتر کے متعلق پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا تو انہوں نے حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ جیسا جواب دیا۔(فتح الباری:7/564)
حدیث میں ہے''کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔''(صحیح بخاری وتر 990)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے اس کی تفصیل پوچھی تو فرمایا:'' دو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیردیا جائے۔''(صحیح مسلم :1763)
اس حدیث کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وتر کے بغیر ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں۔چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں '' کہ وتر وں