کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 146
جب بھی بیدار ہو یا یادآئے تو اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔''ا س موقف کی بنیاد حدیث نبوی پر ہے۔(مستدرک حاکم :ج 1 ص 443) صحیح موقف یہ ہے کہ اگر کسی کا وظیفہ شب رہ جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں 'اگر پڑھنا چاہے تو اگلے دن ظہر سے پہلے پہلے اسے ادا کرے ،ا س صورت میں اسے رات کے وقت ادائیگی کا ہی ثواب ملے گا۔(صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین :142) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ مبارک یہ تھا کہ جب نیند یا کوئی تکلیف قیام اللیل سے رکاوٹ بن جاتی تو دن میں بارہ رکعات ادا فرمالیتے تھے ۔(صحیح مسلم صلوۃ المسافرین 139) سوال۔تین وتر ایک سلام سے پڑھے جائیں یا دو سلام سے؟ اگر دو سلام سے پڑھے جائیں تو نیت اکھٹی ہوگی یا علیحدہ علیحدہ۔ جواب۔ تین وتر پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ انہیں ایسے انداز میں پڑھا جائے کہ نماز مغرب سے مشابہت نہ ہو۔(دارقطنی :2/25) اس حدیث کے پیش نظر تین وتر اد کرنے کے دو طریقے حسب ذیل ہیں: 1۔مفصول:دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے، پھرایک رکعت ادا کی جائے ،ایساکرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس صورت میں آخری ایک رکعت کے لئے نیت الگ کرنا ہوگی۔ 2۔موصول:دو رکعت کے بعد تشہد کے بغیر کھڑا ہوجائے اورتیسری رکعت ادا کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا عملاً ثابت ہے۔(نسائی ،بیہقی) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔(محلی ابن حزم 3/47) سوال۔متعدد قارئین کی طرف سے یہ سوال موصول ہواہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور سوجائے تو رات کسی وقت بیدار ہوکر اسے تہجد پڑھنے کی اجازت ہے؟تہجد پڑھنے کی صورت میں وتروں کے متعلق کیا حکم ہے؟کیا ایک رکعت پڑھ کرپہلے ادا کردہ وتروں کو ختم کردے۔پھر آخر میں دوبارہ وتر پڑھے یا بیداری کے بعد حسب توفیق نوافل پڑھتا رہے اور اسے آخر میں وتر کی ضرورت نہیں بلکہ پہلے سے ادا کردہ وتر ہی کافی ہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیا جائے۔ جواب۔محدثین کی اصطلاح میں ایک رکعت پڑھ کر پہلے ادا کردہ وتروں کی تعداد کو جفت کرنا نقض وتر کہلاتاہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں نقض وتر کے متعلق اختلاف تھا، کچھ حضرات اس کے قائل تھے اور اکثریت اس کی قائل نہ تھی، چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کچھ تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم نقض وترکے قائل تھے۔وہ اس طرح کہ دوبارہ بیدار ہوکر ایک رکعت پڑھے اور اسے ادا کردہ وتروں سے ملا دیا جائے ،پھر جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لئے جائیں، اس کے اختتام پر وترادا کرلیے جائیں کیوں کہ حدیث میں ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔اس کے برعکس کچھ اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کا موقف ہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوجائے، پھررات کے کسی حصہ میں بیدار ہوتو حسب توفیق نفلی نماز پڑھتا رہے، اسے نقض وترکی ضرورت نہیں بلکہ اس کے پہلے ادا کردہ وتر ہی برقرار رہیں۔اسے دوبارہ وتر پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں۔پھر فرماتے ہیں کہ یہ آخری موقف زیادہ صحیح ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے