کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 142
جواب۔دوران سفر کتنے روز قیام میں نماز قصر کی جاسکتی ہے اس کے متعلق ائمہ کرام میں کچھ کااختلاف ہے کیوں کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی واضح اور صریح حکم مروی نہیں ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ اگر کسی جگہ پر انیس دن ٹھہرنے کا ارادہ ہوتو نماز قصر کی جائے اور اس سے زیادہ اقامت کی نیت ہوتو نماز پوری پڑھی جائے۔(صحیح بخاری ابو اب التقصیر) لیکن اکثر محدثین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دوران سفر مقام پڑاؤ یا منزل مقصود پر پہنچے اور وہاں سے روانگی کے دن کے علاوہ اگر تین دن اور تین رات ٹھہرنے کا پختہ اور یقینی ارادہ ہوتو وہاں نماز قصر کی جائے گی۔اگر اس سے زیادہ قیام کا پروگرام ہے تو نماز پوری ادا کرنا ہوگی۔فقہاء کی اصطلاح میں اسے وطن اقامت کہا جاتا ہے۔ اور جہاں انسان کی پیدائش ہواور اہل عیال کے ساتھ وہاں رہائش رکھے ہوئے تو وطن اصلی کہا جاتا ہے۔محدثین عظام نے اپنے اس موقف کی بنیاد اس حدیث پر رکھی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہاجرین کےمتعلق ایک حکم منقول ہےکہ وہ مناسک حج اداکرنے کے بعد صرف تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہر سکتے ہیں۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:''حج اداکرنے کے بعد مہاجر تین دن مکہ مکرمہ میں قیام رکھ سکتا ہے۔''(صحیح مسلم) اس کامطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے مکہ مکرمہ کو چھوڑا تھا، اس بنا پر مکہ فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافرانہ حالت برقرار رہنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق مکمل تین دن اور تین رات کے قیام سے انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر اقامت رکھنے کے باوجود اس کی مسافرانہ حالت برقرارہتی ہے۔اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ہوتی ہے جو حجۃ الوادع کے موقع پر سامنے آیا تھا کہ آپ نے اپنی آمداور ر وانگی کے دن کے علاوہ مکہ مکرمہ میں پورے تین دن قیام فرمایا اور نماز قصرکرتے رہے،صور ت مسئولہ میں طلباء کا کالج میں پورا ایک سال رہنے کا پروگرام ہے اور اپنے قیام کے لئے انہوں نے واجبات بھی ادا کردیے ہیں، اس بنا پر یہ کالج ان کے لئے وطن اقامت بن چکا ہے ،لہذا وہ قصر کرنے کی رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے بلکہ انھیں کالج میں دوران اقامت پوری نماز پڑھنا ہوگی ،اس طرح جب وہ اپنے گھر والدین سے ملنے آئیں گے تو یہ ان کا وطن اصلی ہے یہاں بھی انہوں نے پوری نماز ادا کرنی ہے۔البتہ دوران سفر اگر نماز کا وقت ہوجائے تو اسے قصر کرکے پڑھ سکتے ہیں ،البتہ کالج جوان کا وطن اقامت ہے اور گھر جوان کا وطن اصلی ہے دونوں مقام پرنماز پوری ادا کرنی ہوگی۔(واللہ اعلم) سوال۔شہداد پور سے عبد الشکور لکھتے ہیں کہ ایک آدمی اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں ملازمت کے لئے جاتا ہے،کچھ عرصہ بعد ایک دو دن کے لئے گھر آتا ہے۔اس صورت میں اسے نماز پوری ادا کرنا ہوگی یا قصر پڑھنے کی گنجائش ہے؟ جواب۔فقہائے اسلام نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں: وطن اصلی :وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہے اور اپنے والدین یا اہل وعیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔وطن اقامت :وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کے لئے رہائش رکھے ہوئے ہو۔ احکام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ، لہذا اگر کوئی انسان کاروبا ر کے لئے کسی دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور اس کا پہلا گھر (وطن اصلی) بھی موجود ہے تو اس صورت میں جائے ملازمت (وطن اقامت ) اور رہائشی گھر (وطن اصلی )دونوں مقامات پر نماز پوری ادا کرنا ہوگی ،البتہ دوران سفر قصر کی اجازت ہے۔جس مقام پر انسان کی رہائش یا ملازمت یا جائیداد