کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 140
پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ کسی جگہ پر آدمی مجبورا ً رکا ہو اور ہر وقت یہ خیال دامن گیر ہو کہ مجبوری ختم ہوتے ہی گھر واپس چلا جاؤں گا تو ایسی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ پر بلا تعیین مدت نماز قصر کی جاتی رہے گی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعدد ایسی مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں کہ انہوں نے ایسے غیر یقینی حالات میں لمبی مدت تک کے لئے نمازیں قصر سے پڑھی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ ہمیشہ سفر میں قصر کرتے تھے۔کسی معتبر روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ نے کبھی سفر میں چار رکعت پڑھی ہوں،یعنی نماز پوری ادا کی ہو،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ متعدد مرتبہ سفر کیا ہے،میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان حضرات نے دوران سفر پوری نماز پڑھی ہو،یعنی قصر نمازیں ادا کرتے رہے ہیں۔پھر آپ نے سورہ احزاب میں سے یہ آیت تلاوت فرمائی :'' کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔''(صحیح مسلم حدیث نمبر 689) البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ انہوں نے حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعت پڑھائی تھیں۔ اور محدثین کرام نے اس کی متعدد وجوہ بیان فرمائی ہیں۔اور اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی منقول ہے کہ آپ دوران سفر کبھی کبھار پوری نماز پڑھ لیتی تھیں۔ان احادیث کے پیش نظر محتاط ائمہ کرام نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو اللہ کی دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے، اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر نماز قصرپڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری اد ا کرتا ہے تو اس کا جواز ہے اور بدعت وغیرہ کے زمر ے میں نہیں آتی۔ فقہائے اسلام نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں: 1۔وطن اصلی :وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہے اور اپنے والدین یا اہل وعیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔ 2۔وطن اقامت :وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کے لئے رہائش رکھے ہوئے ہو۔ احکام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا اگر کوئی انسان کاروبا ر کے لئے کسی دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور اس کا پہلا گھر (وطن اصلی) بھی موجود ہے تو اس صورت میں جائے کاروبار یا جائے ملازمت (وطن اقامت ) اور رہائشی گھر اقامت ہی کے حکم میں ہیں۔ذاتی مکانات اگرچہ متعدد ہوں اور مختلف مقامات پر ہوں وہاں نماز پوری ادا کرنا ہوگی۔اسی طرح اپنی ذاتی زمین کی دیکھ بھال کے لئے کبھی کبھار جو سفر اختیار کرنا پڑتا ہے دوران سفر قصر اور زمین پر پہنچ کر پوری نماز پڑھنا ہوگی۔ذاتی دکانوں اور پلاٹوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔ صورت مسئولہ میں ذاتی مکانات جہاں کہیں ہوں اور ذاتی زرعی زمین بھی جہاں کہیں ہو وہاں نمازپوری اد ا کرنا ہوگی۔کیوں کہ جب تک مکان یا ذاتی جائیداد موجود ہے، وہ اس کی اقامت گاہ ہے اور نماز کے لئے قصر کی رعایت مسافر کو ہے مقیم کو نہیں۔ سوال۔لاہور سے شوکت علی لکھتے ہیں کہ ہم روزانہ شہر سے باہر کام کرنے کے لئے جاتے ہیں وہ تقریباً 9میل سے زائد سفرہے۔ڈیوٹی کے دوران جو نماز آئے گی اسے کیسے ادا کریں، نیز اپنے سسرال کے ہاں نماز کیسے ادا کی جائے گی جبکہ اس کا فاصلہ 9 میل سے