کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 1) - صفحہ 139
مسافت کی مقدار کو معین کیا جاسکتا ہو، البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جو سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک خادم خاص کی حیثیت سے رہے ہیں'انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل سے استنباط کیا ہے کم از کم نومیل کی مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے، چنانچہ آپ کے شاگرد یحییٰ بن یزید نے نماز قصرکے لئے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیا توحضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یا تین فرسنگ کا سفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔(روایت میں سفر کی تعیین کے متعلق تردد ایک راوی شعبہ کو ہوا ہے)(صحیح مسلم :حدیث نمبر 691) واضح رہے کہ روایت میں تین میل کے بجائے تین فرسنگ مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے کیوں کہ اس میں میل بھی آجاتے ہیں کہ ایک فرسنگ تین میل کا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسافت اگر نو میل ہوتو اپنے شہر یا گاؤں کی حد سے نکل کر نماز قصر کی جاسکتی ہے۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد قصر کا آغاز ہونا چاہیے، روایت میں انتہائے سفر کا بیان نہیں ہے،لیکن روایت کا یہ مفہوم اس لئے درست نہیں ہے کہ سائل نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جواز قصر کے لئے مسافت کے متعلق سوال کیاتھا اور اس کے سوال کے مطابق ہی اسے جواب دیا گیا۔اس کے بعد یہ مفروضہ قائم کرنا کہ واقعاتی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف اتنی مسافت پر مشتمل سفر کرنا ثابت نہیں، اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ سائل کے سوال کو سمجھ کر اس کے مطابق جواب دیتے ہیں جو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ دوران سفر کتنے روز کے قیام میں نماز قصر کی جاسکتی ہے ؟اس کے متعلق بھی ائمہ کرام سے اختلاف منقول ہے۔ اس بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے ،البتہ آپ کے عمل مبارک سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ دوران سفر، قیام پڑاؤ یا منزل مقصود پر پہنچے اور روانگی کے دن کے علاوہ اگر تین دن اور تین رات ٹھہرنے کا ارادہ یقینی ہو تو نماز قصر ادا کرنا چاہیے، اس سے زیادہ قیام مقصود ہوتو نماز پوری پڑھنا ہوگی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے ہیں اور آٹھویں ذوالحجہ صبح کی نماز ادا کرکے منیٰ کو روانہ ہوئے ہیں۔یعنی آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام کیا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا اور اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے، دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ دوران سفر اگر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہوتو نمازقصر ادا کرنے کا ثبوت خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتا ہے، اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کومناسک حج ادا کرنے کے بعد صرف تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:'' کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔''(صحیح مسلم :کتاب الحج باب جواز الاقامۃ بمکۃ للمہاجر) اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے مکہ مکرمہ کوچھوڑا تھا، اس لئے مکہ فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافر انہ حالت برقرار رہنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین رات کے قیام سے ایک مسافر انسان کے مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے ا س کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے، اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا یہی موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن کو نکال کر اگر پورے تین دن اور تین رات قیام کا پختہ ارادہ ہوتو نماز قصر